افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی، ڈیبرا لی اونز نے جمعرات کے روز سلامتی کونسل کے ایک ورچوئل اجلاس کو بتایا کہ افغانستان کے لیے یہ ایک یادگار سال تھا، تاہم حکام کو کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کے دور میں قومی سلامتی کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے عالمی حمایت درکار ہو گی۔
ڈیبرا لی اونز کا کہنا تھا کہ 2020 میں گہری تبدیلیاں رونما ہوئیں، جن میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدہ، بین الافغان امن مذاکرات کا آغاز اور عطیہ دینے والوں کی ایک بڑی کانفرنس شامل ہے۔
لی اونز کے بقول 2020 ہر لحاظ سے ایک بڑا سال تھا۔ انہوں نے کہا کہ آگے اس سے بھی اہم سال آئیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ أفغانستان میں واضح طور پر آئندہ سال مزید پیش رفت ہو گی، لیکن اسے اس کونسل کی حمایت بھی درکار ہو گی۔
ڈیبرا لی اونز، افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے اسسٹنس مشن کی بھی سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 2020 افغانستان کے لیے یادگار ترین برسوں میں سے ایک تھا۔
انہوں نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ تین ماہ تک بلا رکاوٹ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والی بات چیت میں تھوڑی، مگر ٹھوس پیش رفت ہوئی۔ تاہم اب دونوں فریقوں نے متفقہ طور پر تین ہفتے تک بات چیت مؤخر کی ہے۔
عالمی برادری نے بھی گزشتہ ماہ جنیوا میں ہونے والی ڈونر کانفرنس میں افغانستان کے لیے معاشی امداد کا وعدہ کیا ہے۔ مختلف ممالک نے آئندہ چار برسوں کے دوران تین ارب ڈالر امداد کا اعادہ کیا ہے۔ تاہم امداد کا انحصار قیام امن، قانون کی حکمرانی، انسدادِ بدعنوانی اور خواتین کے حقوق پر ہے۔
وحشیانہ تشدد ایک مسلسل خطرہ
ڈیبرا لی اونز کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جاری مستقل تشدد، ملک میں دیرپا امن کے قیام کے لئے خطرہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سن 2020 کے لیے جاری ہونے والے امن کے گلوبل انڈیکس میں مسلسل دوسرے سال، افغانستان کو سب سے زیادہ بد امنی کا شکار کہا گیا ہے۔
ڈیبرا نے بتایا کہ افغانستان صحافیوں کے لیے بھی خطرناک ترین ملک گردانا جاتا ہے، اور صرف 2020 میں چھ صحافی قتل ہوئے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گیارہ کارکن بھی ہلاک ہوئے اور متعدد زخمی ہوئے یا انہیں ڈرایا دھمکایا گیا۔
افغانستان کو کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کی دوسری لہر کا سامنا ہے، جس سے بھوک اور غذائی قلت میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ اقوام متحدہ نے اس حوالے سے اپنی امداد میں بھی اضافہ کیا ہے، اور ڈیبرا لی اونز نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ انسانی فلاح سے متعلق کارروائیوں کے لیے جی بھر کر عطیات دیں۔