افغانستان کے دارالحکومت کابل میں خودکش بم دھماکوں میں 80 افراد کی ہلاکت پر اتوار کو ملک میں یوم سوگ منایا گیا۔
ہفتہ کو دو خودکش بمباروں نے مظاہرہ کرنے والے ہزارہ برادری کے لوگوں کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا جس سے 200 سے زائد افراد زخمی بھی ہوگئے۔
وزارت داخلہ کے مطابق ملک میں آئندہ دس روز کے لیے عوامی اجتماعات اور جلوسوں پر پابندی عائد کر دی ہے اور حکام کے بقول اس کا ایک مقصد کسی ممکنہ فرقہ وارانہ کشیدگی کو روکنا بھی ہے۔
صدر اشرف غنی نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس کی مکمل تحقیقات کا حکم دیااور اتوار کو یوم سوگ منانے کا اعلان کیا تھا جس میں اس حملے میں ہلاک و زخمی ہونے والوں کے لیے مساجد میں خصوصی دعا کا اہتمام کرنے کا کہا گیا۔
پولیس کے مطابق حملہ آوروں کی تعداد تین تھی جن میں سے ایک خودکش بمبار کو سکیورٹی فورسز نے دھماکے سے قبل ہی گولی مار کر ہلاک کر دیا جب کہ دیگر دو اپنے جسم سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
ہزارہ برادری کے ہزاروں لوگ بجلی کی 500 کلوواٹ ٹرانسمیشن لائن کو بامیان اور وردک سے گزارنے کا مطالبہ لے کر احتجاج کرنے نکلے تھے۔
شدت پسند گروپ داعش نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ہزارہ برادری کو متنبہ کیا کہ وہ داعش کے خلاف شام کی حکومت کی لڑائی شامل ہونے سے باز رہیں۔
ہزارہ برادری کی اکثریت شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے اور ایسی اطلاعات سامنے آتی رہی ہیں کہ اس برادری کے افراد شام میں داعش کے خلاف لڑائی میں شریک ہیں۔
طالبان نے اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
حالیہ مہینوں میں داعش کے جنگجو افغانستان کے مشرقی حصے میں سرگرم رہے ہیں لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اس گروپ نے دارالحکومت کابل میں ایک بڑے حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ایک ایسے وقت جب داعش کے خلاف افغانستان میں مقامی سکیورٹی فورسز بین الاقوامی فوجیوں کے ساتھ مل کر شدت پسندوں اور داعش کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں، کابل میں ہلاکت خیز حملے نے داعش کی ملک میں موجودگی اور اس کی صلاحیت کے تناظر میں خدشات کو بھی جنم دیا ہے۔
افغان امور کے ماہر اور سینیئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے وائس امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اب تک افغان حکومت طالبان ہی کو ایک بڑا خطرہ سمجھتی رہی تاہم ان کے بقول افغانستان میں داعش کی موجودگی اب ایک نیا اور پیچیدہ چیلنج ہے۔
" اب یہ گروپ پیدا ہو گیا ہے اس میں بظاہر افغان طالبان کے ناراض لوگ بھی شامل ہیں اور یہ بہت زیادہ متشدد ہیں ۔۔۔ ان کے پاس بظاہر خود کش حملے کرنے والے بھی ہیں یہ ایک ایسا خطرہ ہے جس کا سامنا (افغانستان کو) دو تین سال سے ہے" ۔
ہفتہ کو ہونے والے اس ہلاکت خیز حملے کی امریکہ سمیت بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کی گئی ہے۔
واشنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان کی سلامتی و استحکام کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنی معاونت فراہم کرنے کے عزم پر قائم ہے۔