افغانستان کو برآمدی تیل کی ترسیل پر ایرانی پابندیوں کے خلاف افغان حکومت اور شہریوں کے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
اتوار کو مغربی صوبے ہرات میں ایرانی کونسل خانے کے سامنے دوسرے روز بھی ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیاجس میں لگ بھگ تین سو افراد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں ایران مخالف بینرز ، پتھراور ٹماٹر اٹھارکھے تھے۔
دو روز قبل کابل میں ایرانی سفارت خانے کے سامنے بھی ایسا ہی ایک مظاہرہ کیا گیا تھا جس پر تہران نے افغانستان سے باضابطہ طور پر احتجاج بھی کیا ہے۔
افغان دارالحکومت میں اتوار کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر تجارت انوار الحق اہادی نے ایران کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی حکام نے بغیر کسی ٹھوس وضاحت کے یہ اقدامات اٹھائے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت سرحد کی دوسری جانب لگ بھگ دو ہزار آئل ٹینکر کھڑے ہیں جن میں سے ایران نے روزانہ 40 گاڑیوں کو افغانستان داخل ہونے کی اجازت دی ہے۔
افغان وزیر تجارت نے کہا اُن کا ملک تقریباََ چالیس فیصد تیل ایران کے راستے درآمد کرتا ہے اور حالیہ پابندیوں نے حکومت اور عوام دونوں کے لیے ایک بحران کی سی صورت حال پید ا کردی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایرانی حکام کی طرف سے اس مسئلے کو حل کرنے کی یقین دہانیوں کے باوجود معاملہ جوں کا توں ہے۔ افغان تاجروں کے بقول محدود تعداد میں آئل ٹینکروں کو افغانستان جانے کی اجازت دینے کی وجہ بتاتے ہوئے ایرانی حکام نے کہا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ یہ تیل نیٹو اور امریکی افواج کو فراہم کیا جارہا ہے۔
وزیر تجارت اہادی نے کہا کہ ایران کے یہ خدشات بھی پابندیوں کی ایک وجہ ہو سکتے ہیں لیکن نیٹو افواج کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ اُن کی ضرورت کا تیل دوسرے راستوں سے افغانستان درآمد کیا جا رہا ہے۔