افغانستان میں جنگ کے خاتمے کی کوششوں کے سلسلے میں سابق صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کی قیادت میں پندرہ رکنی وفد پاکستانی رہنماؤں سے بات چیت کے لیے منگل کو اسلام آباد پہنچا ہے۔
اسلام آباد میں افغانستان کے سفارت خانے کے ایک اعلیٰ عہدیدار رحیم اللہ قطرہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ وفد پاکستان میں تین دن قیام کے دوران صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر اہم شخصیات سے ملاقاتیں کرے گا۔
توقع ہے کہ بات چیت میں افغان حکومت کے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ افغان قائدین کا ماننا ہے کہ طالبان کے ساتھ ماضی کے روابط اور اثرو رسوخ کو استعمال کر کے پاکستان عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد کرسکتا ہے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے تشدد کی مذمت کرنے والے طالبان کے ساتھ مفاہمت کی ضرورت پر زور دیا ہے اور پروفیسر برہان الدین کی سربراہی میں امن کونسل کی تشکیل بھی اُنھی کوششوں کو آگے بڑھانے کا حصہ ہے۔
افغان امن کونسل نے طالبان کے ساتھ ابتدائی رابطوں کی تصدیق بھی کی ہے لیکن وہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے۔ طالبان کے ایک سینیئر رہنما کی افغان حکام بشمول صدر حامد کرزئی سے ملاقاتوں میں نیٹو نے بھی کردار ادا کیا۔
لیکن گذشتہ سال کے آخر میں امن کی کوششوں کو اُس وقت شدید دھچکا لگا جب نیٹو اور امریکی حکام نے اعتراف کیا کہ ملا منصور کے نام پربات چیت میں طالبان کی نمائندگی کرنے والا شخص دراصل ایک بہروپیا تھا جسے افغان حکام کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے بھاری رقوم بھی ادا کی گئیں۔