مبصرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے امریکی قیادت میں جاری افغان جنگ میں شدت آرہی ہے، خطّے میں پاکستان کا کردار اہم اور پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ امریکہ کو اپنی افغان حکمتِ عملی پہ عمل درآمد کیلیے پاکستان کے تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ جواباً پاکستان امریکہ سے بیرونی امداد خصوصاً فوجی تعاون کے حصول کا خواہاں ہے۔
حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والی اپنی کتاب "اوباماز وار" میں امریکی صحافی باب ووڈورڈ نے 2009 کے اواخر میں اوول آفس میں ہونے والی ایک میٹنگ میں کہا گیا صدر باراک اوباما کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ "ہمیں لوگوں پر یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ کینسر پاکستان میں موجودہے"۔ صدر اوباما کا اشارہ پاکستانی علاقوں میں موجود طالبان جنگجوئوں کے وہ محفوظ ٹھکانے تھے جہاں سے وہ افغانستان میں تعینات مغربی افواج پر حملے کرتے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے پاکستانی حکومت کی تمام تر خوشامد اور امداد و معاشی تعاون کے وعدوں کے باوجود پاکستانی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کی یہ پناہ گاہیں تاحال کسی بڑے نقصان سے محفوظ ہیں۔
مبصرین کے مطابق اس صورتِ حال کے سبب جنم لیتی مایوسی کے زیرِ اثر امریکہ نے حال ہی میں پاکستانی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر اپنے فضائی ڈرون حملوں میں خاصا اضافہ کردیاہے۔ ساتھ ہی ساتھ حالیہ دنوں میں نیٹو افواج کی جانب سے طالبان جنگجوئوں کے تعاقب میں پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کے واقعات بھی منظرِ عام پر آئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ایسے ہی ایک واقعے میں نیٹو کے جنگی ہیلی کاپٹر کی بمباری سے تین پاکستانی سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔
واقعے کے ردِعمل میں پاکستانی حکام کی جانب سے خیبر پاس کے نام سے مشہور مغربی سرحدی راستے کو بند کردیا گیا تھا جس کے باعث افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کو ایندھن اور دیگر ضروری اشیاء کی فراہمی معطل ہوگئی تھی۔ سرحد کی بندش کے باعث پاکستان کے مختلف علاقوں میں روکے جانے والے نیٹو کی اشیاء سے لدے کئی ٹرکوں کو طالبان جنگجوئوں نے حملہ کرکے نذرِ آتش کردیا تھا۔
یورپی یونین کے سابقہ خصوصی ایلچی برائے افغانستان فرانسس وینڈرل سمجھتے ہیں کہ نیٹو افواج کی جانب پاکستانی سرحدوں کے اندر کاروائی کے کئی ایک واقعات کو "گرم تعاقب" کے نظریے کے تحت قانونی جواز فراہم کیا جاسکتاہے۔ تاہم ان کے نزدیک تشویش کی اصل بات یہ ہے کہ ایسے حملوں کے ردِعمل کے طور پر پاکستانی عوام میں امریکہ کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے۔
وینڈرل کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں تعینات نیٹو افواج کی جانب سے سرحد پار کیے جانے والے اس طرح کے حملے پاکستان کی طاقتور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو مغربی اقوام کی افغانستان میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے پر اُکسا سکتے ہیں۔
پاکستان طالبان کی پشت پناہی کے الزام کی مسلسل تردید کرتا آیا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صرف کررہا ہے۔ تاہم کئی تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد خطے میں ایک اہم کردار ادا کرنے کی غرض سے اپنے لیے ماحول سازگار بنا رہا ہے۔
اگر زمینی حالات نے اجازت دی تو افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا عمل صدر اوباما کی حکمتِ عملی کے عین مطابق آئندہ سال جولائی میں شروع ہونے کا امکان ہے۔ تاہم اس منصوبے پر عمل درآمد کا براہِ راست تعلق افغانستان میں سیاسی استحکام کے حصول سے ہے جو کہ فی الوقت ممکن نظر نہیں آتا۔
امریکہ کے آرمی وار کالج سے وابستہ پروفیسر لیری گڈسن کے مطابق افغانستان میں گزشتہ ماہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں "یقنی اور موثر" طور پر دھاندلی کی گئی تھی۔ گڈسن کا کہنا ہے کہ امریکہ کی افغان پالیسی پہ عمل درآمد کیلیے افغانستان میں قانونی جواز اور عوامی اعتماد کی حامل حکومت کا قیام لازمی ہے جبکہ بقول ان کے افغان صدر حامد کرزئی کی حکومت کا تاثر ایک بدعنوان انتظامیہ کا ہے۔
گڈسن کہتے ہیں کہ غیر شفاف انتخابات کے ذریعے ایک قانونی جواز کی حامل حکومت کا حصول ناممکن ہے۔ ان کے مطابق موجودہ افغان حکومت اس مقصد کے حصول کیلیے دوسری ممکنہ راہوں مثلاً عوام کو سہولیات اور اشیائے ضروری کی فراہمی جیسے کاموں میں بھی ناکام رہی ہے۔ ان کے نزدیک افغان عوام سے ایک ایسی حکومت کا وجود تسلیم کرانا جو بذاتِ خود اپنے قیام کے کسی جواز سے محروم ہو ایک مشکل کام ہے۔
نیشنل بیورو آف ایشین ریسرچ کی ایک رپورٹ، جو کبھی منظرِ عام پر نہیں لائی گئی، میں پروفیسر گڈسن نے لکھا تھا: "اس بات کا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ امریکہ مستقبل قریب میں افغانستان سے خود کو بآسانی نکال پائے گا۔ امریکہ نہ صرف خطے کی دیگر طاقتوں پہ اپنا اثررسوخ کھو بیٹھے گا، بلکہ ریاست کی تعمیر اور امن و استحکام کیلیے لازم تصور کیے جانے والے تمام منصوبے بھی ناکامی سے دوچار ہونگے"۔
اور اس صورتِ حال کے نتیجے میں امریکہ کا پاکستان پہ انحصار بڑھ جائے گا۔ ایک نجی تحقیقاتی کمپنی "اسٹریٹ فور" کے تجزیے کے مطابق "مغربی طاقتوں کو جلد ہی مذاکرات کے ذریعے افغان طالبان کے ساتھ مفاہمت کرنا ہوگی جس کیلیے انہیں پاکستان کی مدد درکار ہوگی۔ ایک ایسی مفاہمت جس کے تحت افغانستان سے مغربی افواج کے انخلاء کیلیے حالات سازگار بنائے جاسکیں"۔