امریکی، افغان اور پاکستانی عہدے داروں نے حال ہی میں علاقائی سکیورٹی پر سرگرمی سے مذاکرات کیے ہیں اور دفاعی ترجیحات میں تعاون کرنے پر اتفاق کیا ہے۔
اسلام آباد —
2014ء کے بعد جب افغانستان سے بین الاقوامی فوجی رخصت ہو چکے ہوں گے، امریکی فوجوں کی موجودگی کے بارے میں بات چیت کے لیے امریکی وزیرِ دفاع لیون پنیٹا بدھ کے روز کابل پہنچے، ان کے اس دورے کا پہلے سے اعلان نہیں کیا گیا تھا۔
امریکی، افغان اور پاکستانی عہدے داروں نے حال ہی میں علاقائی سکیورٹی پر سرگرمی سے مذاکرات کیے ہیں اور دفاعی ترجیحات میں تعاون کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ افغانستان میں ناکامی کے جو نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں، ان کا خوف ان ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آیا ہے۔
2014ء میں بین الاقوامی لڑاکا فوجوں کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد، تشدد میں اضافے کے امکانات کے پیشِ نظر، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ علاقے میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے، زیادہ قریبی تعاون کرنے کو تیار ہیں۔
سینیٹر مشاہد حسین کہتے ہیں کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں جو تیزی آئی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ افغانستان کے معاملے میں دونوں ملکوں کے تعلقات پرانی نہج پر واپس آ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان اب پوری طرح اس معاملے میں شامل ہے۔ امریکہ اب یہ کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان مصالحت کے عمل کا حصہ بن جائے۔‘‘
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی فوج جس نے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے، عسکریت پسند گروپوں پر انحصار کیا تھا، اب اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے، امریکہ کے ساتھ اپنے تعلق پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔
واشنگٹن میں وڈرو ولسن سینٹر کی سمبل خان کہتی ہیں کہ اسلام آباد میں اب یہ بات سمجھ لی گئی ہے کہ اگر افغانستان میں سکیورٹی کی صورتِ حال خراب ہوئی، تو پاکستان پر اس کے گہر ے اثرات مرتب ہوں گے۔
’’میرے خیال میں پاکستانیوں کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ رابطہ رکھیں، اور اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان مکمل اتفاقِ رائے نہیں ہے، بلکہ بہت سے اختلافات ہیں، خاص طور سے افغانستان کے معاملے میں، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ان اختلافات کے درمیان مفاہمت کی کچھ جگہ موجود ہے جہاں دونوں ملک آگے بڑھے ہیں، اور جہاں دونوں تعاون کر سکتے ہیں اور پیش رفت کر سکتےہیں۔‘‘
2014ء کے بعد امریکہ نے افغانستان کے لیے جو منصوبہ بنایا ہے اس کے تحت امریکی عملے کی اچھی خاصی تعداد افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے وہاں رہے گی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس عملے میں انسدادِ دہشت گردی کا مضبوط عنصر شامل ہو گا جس کی قیادت امریکہ کی اسپیشل فورسز اور سی آئی اے کے پاس ہو گی۔
بہت سے طالبان جنہیں امریکہ نشانہ بنانا چاہتا ہے، پاکستانی سرحد کے علاقے میں چھپے ہوئے ہیں۔ سمبل خان کہتی ہیں کہ پاکستان کو ڈر ہے کہ اگر بین الاقوامی فوجوں کی واپسی سے پہلے طالبان کو امن کے عمل میں شامل نہ کیا گیا، تو طالبان کے حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہوں کے خلاف امریکہ کی کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔
’’اس طرح ایک بار پھر وہی مرحلہ آ سکتا ہے جب امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات خراب ہو جائیں، اور انسداد ِ دہشت گردی کے حملوں میں پاکستان کو ہدف بنایا جانے لگے اور اس کا شراکت دار کا رول ختم ہو جائے۔ یہ بات بہت اہم ہے۔ ہماری پریشانی یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان شراکت دار نہ رہے، بلکہ 2014ء کے بعد کے عہد میں، وہ ایک بار پھر حملوں کا ہدف بن جائے ۔‘‘
پینٹا گان کی 2012ء کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں باغیوں کو پاکستان میں موجود پناہ گاہوں سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔
لیکن امریکہ کے وزیرِ دفاع لیون پنیٹا جنھوں نے ماضی میں پاکستان پر سخت تنقید کی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے میں نا کام رہا ہے، اس ہفتے انھوں نے کہا کہ پاکستان نے ملک کے اندر دہشت گردی کا خطرہ کم کرنے کے لیے رضامندی کا جو اظہار کیا ہے، اس سے امریکہ کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
تجزیہ کار امتیاز گُل کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری اور پاکستان دونوں کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بغیر افغانستان میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔
’’پاکستان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے، اور پاکستان نے بھی یہ بات سمجھ لی ہے کہ امریکہ کی طرف اور افغانستان کی طرف مصالحت کا ہاتھ بڑھانے کے لیے یہی وقت مناسب ہے۔ شاید اس وقت درمیانے عرصے سے طویل عرصے تک کے لیے وہ اپنی شراکت داری سے ، مصالحت کے لیے کام کے ذریعے، کچھ فوائد حاصل کر سکتا ہے۔‘‘
اس مقصد کے لیے، پاکستان نے افغانستان کی درخواست کا مثبت جواب دیا ہے ، کئی طالبان عسکریت پسندوں کو رہا کر دیا ہے اور افغان وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ عہدے داروں کے ساتھ میٹنگیں کی ہیں۔ دونوں ملکوں کے قانون ساز بھی دو طرفہ مذاکرات میں مصروف ہیں۔
تاہم، تجزیہ کاروں نے انتباہ کیا ہے کہ تینوں ملکوں کے درمیان تعلقات اب بھی بڑے نازک ہیں، اور لاگت اور حاصل ہونے والے فوائد کے درمیان تناسب کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتا ہے۔
امریکی، افغان اور پاکستانی عہدے داروں نے حال ہی میں علاقائی سکیورٹی پر سرگرمی سے مذاکرات کیے ہیں اور دفاعی ترجیحات میں تعاون کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ افغانستان میں ناکامی کے جو نتائج بر آمد ہو سکتے ہیں، ان کا خوف ان ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب لے آیا ہے۔
2014ء میں بین الاقوامی لڑاکا فوجوں کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد، تشدد میں اضافے کے امکانات کے پیشِ نظر، ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اور امریکہ علاقے میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے، زیادہ قریبی تعاون کرنے کو تیار ہیں۔
سینیٹر مشاہد حسین کہتے ہیں کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان اعلیٰ سطح کے مذاکرات میں جو تیزی آئی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ افغانستان کے معاملے میں دونوں ملکوں کے تعلقات پرانی نہج پر واپس آ گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان اب پوری طرح اس معاملے میں شامل ہے۔ امریکہ اب یہ کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان مصالحت کے عمل کا حصہ بن جائے۔‘‘
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کی فوج جس نے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے، عسکریت پسند گروپوں پر انحصار کیا تھا، اب اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے، امریکہ کے ساتھ اپنے تعلق پر توجہ مرکوز کر رہی ہے۔
واشنگٹن میں وڈرو ولسن سینٹر کی سمبل خان کہتی ہیں کہ اسلام آباد میں اب یہ بات سمجھ لی گئی ہے کہ اگر افغانستان میں سکیورٹی کی صورتِ حال خراب ہوئی، تو پاکستان پر اس کے گہر ے اثرات مرتب ہوں گے۔
’’میرے خیال میں پاکستانیوں کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ رابطہ رکھیں، اور اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان مکمل اتفاقِ رائے نہیں ہے، بلکہ بہت سے اختلافات ہیں، خاص طور سے افغانستان کے معاملے میں، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ان اختلافات کے درمیان مفاہمت کی کچھ جگہ موجود ہے جہاں دونوں ملک آگے بڑھے ہیں، اور جہاں دونوں تعاون کر سکتے ہیں اور پیش رفت کر سکتےہیں۔‘‘
2014ء کے بعد امریکہ نے افغانستان کے لیے جو منصوبہ بنایا ہے اس کے تحت امریکی عملے کی اچھی خاصی تعداد افغانستان کی سکیورٹی فورسز کی مدد کے لیے وہاں رہے گی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس عملے میں انسدادِ دہشت گردی کا مضبوط عنصر شامل ہو گا جس کی قیادت امریکہ کی اسپیشل فورسز اور سی آئی اے کے پاس ہو گی۔
بہت سے طالبان جنہیں امریکہ نشانہ بنانا چاہتا ہے، پاکستانی سرحد کے علاقے میں چھپے ہوئے ہیں۔ سمبل خان کہتی ہیں کہ پاکستان کو ڈر ہے کہ اگر بین الاقوامی فوجوں کی واپسی سے پہلے طالبان کو امن کے عمل میں شامل نہ کیا گیا، تو طالبان کے حملوں میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہوں کے خلاف امریکہ کی کارروائی شروع ہو سکتی ہے۔
’’اس طرح ایک بار پھر وہی مرحلہ آ سکتا ہے جب امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات خراب ہو جائیں، اور انسداد ِ دہشت گردی کے حملوں میں پاکستان کو ہدف بنایا جانے لگے اور اس کا شراکت دار کا رول ختم ہو جائے۔ یہ بات بہت اہم ہے۔ ہماری پریشانی یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان شراکت دار نہ رہے، بلکہ 2014ء کے بعد کے عہد میں، وہ ایک بار پھر حملوں کا ہدف بن جائے ۔‘‘
پینٹا گان کی 2012ء کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان میں باغیوں کو پاکستان میں موجود پناہ گاہوں سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔
لیکن امریکہ کے وزیرِ دفاع لیون پنیٹا جنھوں نے ماضی میں پاکستان پر سخت تنقید کی ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کرنے میں نا کام رہا ہے، اس ہفتے انھوں نے کہا کہ پاکستان نے ملک کے اندر دہشت گردی کا خطرہ کم کرنے کے لیے رضامندی کا جو اظہار کیا ہے، اس سے امریکہ کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔
تجزیہ کار امتیاز گُل کہتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری اور پاکستان دونوں کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے بغیر افغانستان میں آگے نہیں بڑھ سکتے۔
’’پاکستان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے، اور پاکستان نے بھی یہ بات سمجھ لی ہے کہ امریکہ کی طرف اور افغانستان کی طرف مصالحت کا ہاتھ بڑھانے کے لیے یہی وقت مناسب ہے۔ شاید اس وقت درمیانے عرصے سے طویل عرصے تک کے لیے وہ اپنی شراکت داری سے ، مصالحت کے لیے کام کے ذریعے، کچھ فوائد حاصل کر سکتا ہے۔‘‘
اس مقصد کے لیے، پاکستان نے افغانستان کی درخواست کا مثبت جواب دیا ہے ، کئی طالبان عسکریت پسندوں کو رہا کر دیا ہے اور افغان وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ عہدے داروں کے ساتھ میٹنگیں کی ہیں۔ دونوں ملکوں کے قانون ساز بھی دو طرفہ مذاکرات میں مصروف ہیں۔
تاہم، تجزیہ کاروں نے انتباہ کیا ہے کہ تینوں ملکوں کے درمیان تعلقات اب بھی بڑے نازک ہیں، اور لاگت اور حاصل ہونے والے فوائد کے درمیان تناسب کسی بھی وقت تبدیل ہو سکتا ہے۔