افغان انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی فوج نے افغان سرحد کے ساتھ حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروپوں کے خلاف کی جانے والی اپنی کارروائی میں کم پیش رفت حاصل کی ہے۔
سلامتی سے متعلق نیشنل ڈائریکٹوریٹ کے ترجمان، حبیب صدیقی نے بدھ کو کابل میں اخباری نمائندوں کو بتایا کہ، ’بدقسمتی سے، اب تک (پاکستانی) کارروائی میں کسی بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم کا کوئی قابلِ ذکر نقصان نہیں ہوا‘۔
پاکستان نے جون میں افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد پر شمالی وزیرستان کے قبائلی ضلعے میں شدت پسندوں کے خلاف زمینی آپریشن کا آغاز کیا۔
یہ قبائلی ایجنسی القاعدہ سے منسلک حقانی نیٹ ورک کا ایک گڑھ ہے، جہاں سے افغانستان میں بین الاقوامی اتحادی افواج اور اعلیٰ افغان عہدے داروں کے خلاف متعدد بڑی سطح کے مہلک حملے کیے گئے ہیں۔
صدیقی نے بدھ کے روز کہا کہ حقانی نیٹ ورک اِن آپریشنز سے مستثنیٰ رہا ہے اور یہ کہ افغان انٹیلی جنس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی فوج کی کارروائی کے آغاز سے پہلے ہی شدت پسند شمالی وزیرستان چھوڑ چکے تھے۔
امریکی جوائنٹ چیفز آف اسٹاف کے سابق چیرمین، مائیک ملن نے 2011ء میں کانگریس کو بتایا تھا کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان کے فوجی انٹیلی جنس کے ادارے، آئی ایس آئی کا ’حقیقی بازو‘ ہے۔
پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور فوجی اہل کاروں کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان میں جاری موجودہ کارروائی کے دوران، فوج تمام شدت پسندوں کو ہدف بنا رہی ہے۔
اس سے قبل، اِسی ہفتے، پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہٴ خصوصی، جیمز ڈوبنز نے اس تشویش پر بات کی کہ پاکستانی فوج حقانی شدت پسندوں کو ہدف نہیں بنا رہی۔ اُنھوں نے کابل میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ حقانی نیٹ ورک کو شمالی وزیرستان سے باہر دھکیل دیا گیا ہے، لیکن، جس بات پر تشویش ہے وہ یہ کہ وہ لوٹ آئیں گے یا پھر اُنھیں پاکستان کے کسی دوسرے حصے میں سرگرمی کی اجازت ہوگی۔