پولیس حکام کے مطابق خودکش حملہ آور نے اس وقت اپنے جس سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کیا جب اس کے قریب سے وزارت دفاع کی ایک بس گزر رہی تھی۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اتوار کی صبح ایک سرکاری بس پر خودکش بم حملے میں کم ازکم چار افراد ہلاک ہوگئے۔
پولیس حکام کے مطابق خودکش حملہ آور نے اس وقت اپنے جس سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کیا جب اس کے قریب سے وزارت دفاع کی ایک بس گزر رہی تھی۔
دھماکے سے بس پر سوار فضائیہ کے دو اہلکار اور دو عام شہری ہلاک ہوئے۔
بم دھماکے کی زد میں آکر کم ازکم دس افراد زخمی بھی ہوئے جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے جب کہ قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔
طالبان نے فوری طور پر اس خودکش بم حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
رواں ماہ طالبان شدت پسندوں کی طرف سے یہ تیسرا بڑا حملہ ہے۔ اس سے قبل 17 جنوری کو کابل میں ایک مشہور ریسٹورنٹ پر ہونے والے حملے میں 13 غیر ملکیوں سمیت کم ازکم 21 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
مرنے والوں میں امریکی، برطانوی، کینیڈین اور لبنانی شہری کے علاوہ پاکستان اور صومالیہ سے تعلق رکھنے والے بھی شامل تھے۔
طالبان سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ کابل کے اس حساس علاقے میں کیے گئے حملے سے ان کی استعداد کار کا پتا چلتا ہے اور ان کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ایک بار پھر افغانستان پر تسلط حاصل کر سکتے ہیں۔
مبصرین اور ناقدین بھی رواں سال کے اواخر تک افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے مکمل انخلا اور مقامی سکیورٹی فورسز کی استعداد کار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کر چکے جنگ سے تباہ حال اس ملک پر شدت پسند اپنا اثرورسوخ بڑھا سکتے ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق خودکش حملہ آور نے اس وقت اپنے جس سے بندھے بارودی مواد میں دھماکا کیا جب اس کے قریب سے وزارت دفاع کی ایک بس گزر رہی تھی۔
دھماکے سے بس پر سوار فضائیہ کے دو اہلکار اور دو عام شہری ہلاک ہوئے۔
بم دھماکے کی زد میں آکر کم ازکم دس افراد زخمی بھی ہوئے جن میں ایک بچہ بھی شامل ہے جب کہ قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔
طالبان نے فوری طور پر اس خودکش بم حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
رواں ماہ طالبان شدت پسندوں کی طرف سے یہ تیسرا بڑا حملہ ہے۔ اس سے قبل 17 جنوری کو کابل میں ایک مشہور ریسٹورنٹ پر ہونے والے حملے میں 13 غیر ملکیوں سمیت کم ازکم 21 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
مرنے والوں میں امریکی، برطانوی، کینیڈین اور لبنانی شہری کے علاوہ پاکستان اور صومالیہ سے تعلق رکھنے والے بھی شامل تھے۔
طالبان سے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ کابل کے اس حساس علاقے میں کیے گئے حملے سے ان کی استعداد کار کا پتا چلتا ہے اور ان کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد ایک بار پھر افغانستان پر تسلط حاصل کر سکتے ہیں۔
مبصرین اور ناقدین بھی رواں سال کے اواخر تک افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے مکمل انخلا اور مقامی سکیورٹی فورسز کی استعداد کار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کر چکے جنگ سے تباہ حال اس ملک پر شدت پسند اپنا اثرورسوخ بڑھا سکتے ہیں۔