تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امید کا پہلو یہ ہے کہ بات چیت اور رابطے جاری ہیں۔ یہ اچھی بات ہے۔ لیکن، افغانستان میں امریکہ اور اتحادیوں کے خلاف طالبان کی مزاحمت کے دو عشروں اور مجموعی طور پر خانہ جنگی کے 40 برسوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کوئی راستہ تاحال سجھائی نہیں دیتا
افغان طالبان امریکہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کر رہے ہیں اور اب تو افغان اپوزیشن کے ساتھ بھی ماسکو میں میز پر بیٹھ لیے۔ لیکن، وہ کابل حکومت کے ساتھ بات چیت سے مسلسل گریزاں ہیں۔ گزشتہ روز کےماسکو مذاکرات کو ہر دو فریق کی جانب سے سود کہا جا رہا ہے۔ لیکن، بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ افغانستان میں امن عمل فوری طور پر کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آتا۔
تجزیہ کار یہ بھی سمجھتے ہیں کہ امریکہ 17 سال جنگ لڑنے اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد افغانستان کے اندر موجودہ بندوبست سے مایوس ہے۔ اس لیے وہ متبادل کے طور پر طالبان کو دیکھ رہا ہے۔ اور طالبان ان حالات سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ وہ کسی شراکت اقتدار کے معاہدے کے بجائے طاقت کے ذریعے اقتدار کو ترجیح دیں گے۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی نے ماسکو میں طالبان کے وفد کے ساتھ اپوزیشن کے وفد کی قیادت کی۔ طالبان کے خلاف ایک عرصے تک برسر پیکار رہنے والے مسٹر کرزئی تجزیہ کاروں کے نزدیک بدلتے ہوئے حالات میں مستقبل کے افغانستان میں خود کو غیرمتعلق نہیں دیکھنا چاہتے۔
کامران بخاری ’جارج واشنگٹن یونیورسٹی‘ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’سابق صدر حامد کرزئی اس ملک میں جس اعتماد کے ساتھ رہ رہے ہیں، باوجود سیکورٹی مشکلات کے، اس سے یہ چیز سمجھ آتی ہے کہ وہ کتنا بڑا پلئیر ہے۔ کتنا بڑا کنگ میکر ہے۔‘‘
میر ویس افغان لندن میں مقیم ایک سینئر صحافی ہیں۔ ایک نیوز ایجنسی چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سابق صدر مستقبل کی ممکنہ عبوری حکومت میں اپنے لیے کوئی کردار تلاش کر سکتے ہیں۔
اُن کے الفاظ میں، ’’سابق صدر نے افغانستان کے صدارتی انتخابات میں کسی پر ہاتھ نہیں رکھا۔ لیکن، وہ عبوری حکومت میں اپنے لیے کوئی بڑا کردار تلاش کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
لگاتار دوحہ مذاکرات ہوں، زلمے خلیل زاد کی ’شٹل ڈپلومیسی‘ ہو یا پاکستان قطر اور سعودی عرب کی اثبات پسندی، کامران بخاری کے نزدیک ’’امن کی فاختہ ابھی دور ہواؤں میں ہے‘‘۔ طالبان جنہوں نے 17 سال سخت مزاحمت کی ہے، وہ گھٹنے نہیں ٹیکیں گے اور نہ شراکت اقتدار کی کسی ڈیل کا حصہ بنیں گے۔ وہ ایک اور خانہ جنگی کے لیے بھی تیار ہیں۔
’’طالبان کو شراکت اقتدار کی ضرورت نہیں۔ مذاکرات کے ذریعے وہ خود کو سیاسی اکائی منوانا چاہتے ہیں۔ اگر امریکہ افغانستان سے نکل جائے تو وہ ان کو یقین ہے کہ وہ آرام سے کابل میں آ سکتے ہیں‘‘۔
میر ویس کہتے ہیں کہ امریکہ کے اچانک انخلا سے خانہ جنگی کا خطرہ تو موجود ہوگا، لیکن پڑوسی ملک کبھی ایسی صورتحال نہیں پیدا ہونے دیں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ جلد یا بہ دیر، طالبان کو کابل کے ساتھ بات تو کرنا پڑے گی۔ بقول ان کے، ’’معاہدہ دو لڑنے والی فریق کے درمیان ہوتا ہے۔ اس وقت لڑائی طالبان اور کابل حکومت کی ہے، تو کسی بھی معاہدے پر دستخط کابل حکومت کے ہوں گے۔ طالبان کو بات کرنا پڑے گی، بھلے موجودہ متحدہ حکومت کے ساتھ یا پھر آئندہ انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کے ساتھ‘‘۔
صدر ٹرمپ لا متناہی جنگوں سے نکلنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔ واشنگٹن افغانستان میں طالبان سے کیا چاہتا ہے۔ اس بارے کامران بخاری کی رائے یہ ہے کہ، ’’امریکہ کو لگتا ہے کہ 17 سال کی جنگ اور کئی ٹرلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بھی افغانستان میں حکومتی بندوبست ان کے مقاصد پورے نہیں کر رہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ افغانستان دوبارہ غیرملکی جہادیوں کی آماجگاہ نہ بنے۔ طالبان داعش کے تو پہلے ہی خلاف ہیں امریکہ کی خواہش ہوگی کہ القاعدہ کے ساتھ بھی اس کی طلاق ہو۔ یہ طلاق ہو بھی جائے گی، لیکن اس سے طالبان کی اندرونی صفوں میں چیلنجز پیدا ہوں گے‘‘۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امید کا پہلو یہ ہے کہ بات چیت اور رابطے جاری ہیں۔ یہ اچھی بات ہے۔ لیکن، افغانستان میں امریکہ اور اتحادیوں کے خلاف طالبان کی مزاحمت کے دو عشروں اور مجموعی طور پر خانہ جنگی کے 40 برسوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے کوئی راستہ تاحال سجھائی نہیں دیتا۔