افغانستان میں قیام امن کے لیے حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان بات چیت کا دوسرا دور آئندہ چند روز میں ہونے جا رہا ہے لیکن اس میں کسی ٹھوس پیش رفت کے بارے میں مبصرین کی رائے منقسم نظر آتی ہے۔
افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات کی میزبانی پاکستان نے کی تھی جو رواں ماہ کے اوائل میں اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں منعقد ہوئی اور اس میں امریکہ اور چین کے نمائندے بھی موجود تھے۔
دوسری ملاقات کے بارے میں افغان اعلیٰ امن کونسل کے بعض عہدیداروں کی طرف سے یہ اطلاعات سامنے آئی تھیں کہ دوسرا دور چین کے شہر ارمچی میں ہو گا لیکن پاکستانی عہدیدار کے بقول بات چیت کا یہ دور بھی پاکستان میں ہی منقعد ہو رہا ہے۔
مذاکرات کے پہلے دور کو امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری نے جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں قیام امن کی کوشش کے لیے ایک اہم پیش رفت قرار دیا تھا لیکن گزشتہ ہفتے افغان طالبان کے رہنما ملا عمر سے منسوب ایک بیان میں مری میں ہونے والی ملاقات کا تذکرہ تو نہیں کیا گیا تاہم حکومت سے بات چیت کے عمل کو جائز قرار دیا گیا۔
اس تناظر میں پاکستان کے مبصرین اس مذاکراتی عمل کے بارے میں منقسم رائے کا اظہار کرتے ہیں۔
کابل میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مذاکرات کی اصل حیثیت اور طالبان کی طرف سے اس کی حمایت کے بارے میں متعدد سوالات نے جنم لیا ہے جن کے جوابات ملنا ضروری ہیں۔
"(افغان طالبان کے) دو تین گروپ بن رہے ہیں کچھ لوگ (مذاکرات) کے عمل کی حمایت کرتے ہیں اور کچھ مخالفت کرتے ہیں جو محاذوں پر لڑ رہے ہیں ۔۔۔ دوسری بات ہے کہ ملا عمر سے بھی ر ابطہ ممکن نہیں ہے اس لئے جو ان کے کمانڈر ہیں وہ بھی شوریٰ یا مرکزی قیادت کی ہدایت کے بغیر اپنی پالیسی بناتے ہیں جو اور بھی خطرناک بات ہے۔ یہ (مذاکرات کا) عمل تو شروع ہو چکا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا یہ عمل حقیقی ہے یا نہیں اور کیا طالبان کی مرکزی تنظیم کی یہ نمائندگی کرتا ہے یا نہیں اور خصوصاً ملاعمر کی حمایت اس کو حاصل ہے یا نہیں ہے۔۔۔۔۔ میرے خیال میں اس کی وضاحت ہونی چاہیے تاکہ شکوک وشبہات دور ہو سکیں۔"
تاہم سلامتی کے امور کے ماہر اور سابق بریگیڈیئر اسد منیر کے خیال میں یہ ایک اچھی پیش رفت ہے جسے مزید آگے لے کر جانا چاہیے۔
"ایک تو انہوں (طالبان) نے لچک دکھائی ہے پہلے ان کا موقف تھا کہ جب تک (غیرملکی) فوجی چلے نہیں جاتے اور کٹھ پتلی حکومت ہو گی تو ہم بات نہیں کریں گے تو وہ (موقف) تو انہوں نے تبدیل کر دیا ہے تو تھوڑی سی لچک انہیں (افغان حکومت کو) 2004 کے آئین کو تبدیل کرنے کے بارے میں دکھانی ہو گی اور میں اس (مذاکرات کے عمل) بارے میں پر امید ہوں۔ سب طالبان اس (بات چیت) میں نہیں آئیں گے کچھ چاہیں گے کہ اب جب کی امریکہ جارہا ہے تو ہم کیوں مذاکرات کریں"۔
پاکستان کا یہ موقف رہا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے افغانوں کی زیر قیادت اور ان کی شمولیت سے ہونے والے مصالحتی کوششوں کی بھرپور حمایت اور تعاون جاری رکھے گا۔
ادھر افغانستان میں طالبان کی تشدد پر مبنی کارروائیاں بھی جاری ہیں اور اتوار کو حکام کے بقول شمال مشرقی صوبہ بدخشاں میں شدت پسندوں نے ایک اہم فوجی اڈے پر قبضہ کر لیا۔
ترگان نامی علاقے میں دو روز سے شدت پسندوں کے ساتھ فورسز کی جھڑپیں جاری تھیں لیکن اتوار کو علی الصبح ایک سو کے قریب سکیورٹی اہلکاروں نے عسکریت پسندوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔