امریکہ نے طالبان کو افغانستان میں حالیہ عرصے میں اہم شخصیات کی ہلاکتوں کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ امن کو آگے بڑھنے کا موقع دینے کے لیے عسکری کارروائیاں بند کرے۔
امریکہ کی جانب سے پیر کے روز یہ الزام طالبان کی طرف سے امریکی فضائی حملوں کے خلاف بیان جاری ہونے کے بعد سامنے آیا ہے۔
طالبان نے افغانستان میں موجود امریکی افواج کو خبردار کیا ہے کہ اگر انہوں نے طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے جاری رکھے تو طالبان بھی امریکی فوجوں پر حملے دوبارہ شروع کر دیں گے۔
طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر امریکہ طالبان امن معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قندھار میں فضائی حملے اور آپریشن نہ روکے گئے تو طالبان بھرپور جواب دینے کے لیے مجبور ہوں گے اور نتائج کی تمام تر ذمہ داری امریکہ پر عائد ہو گی۔
افغانستان میں امریکی افواج کے ترجمان سونی لیگیٹ نے طالبان کے دعوؤں کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ امریکہ۔طالبان معاہدے کی خلاف ورزی کے الزامات درست نہیں ہیں۔
ایک ٹوئٹ میں ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہم طالبان کے حملوں کے خلاف افغان افواج کا دفاع کریں گے اور تمام فریقین سے اپیل کریں گے کہ وہ پر تشدد حملے ختم کر دیں۔
SEE ALSO: افغانستان میں امریکی فوجیوں پر مبینہ حملے، چین پر مالی معاونت کا الزامادھر افغان حکومت اور طالبان کی مذاکراتی ٹیموں کے درمیان بات چیت منگل سے دوحہ میں دوبارہ شروع ہو رہی ہے۔ افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم کے رکن غلام فارق مجروح کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران ایجنڈے میں جنگ بندی ایک کلیدی نکتے کے طور پر شامل ہو گی۔
سیاسی تجزیہ کار نجیب آزاد کا کہنا ہے کہ فریقین کو جنگ بندی اور ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے معاہدہ طے کر لینا چاہیے تاکہ افغانستان میں قتل و غارت بند ہو۔ افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم نے پیر کو دوحہ روانہ ہونے سے قبل افہام و تفہیم کی قومی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی ہے۔
افغان صدر اشرف غنی نے پیر کو کابل میں وزارتِ دفاع میں افغان فوجیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افغان عوام کے لیے ایک باوقار امن کے خواہاں ہیں، جس کے تحت ملک میں صرف سرکاری افواج ہی طاقت استعمال کرنے کی مجاز ہو۔