افغانستان کی جنگ کی حمایت کرنے والوں کے لیے یہ ہفتہ بڑا مشکل تھا۔ نیٹو نے اعلان کیا کہ مزید چھ امریکی فوجی افغانستان میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس طرح جولائی میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 66 ہو گئی۔ یُوں تقریباً نو برس پرانی اس جنگ میں جولائی کا مہلک ترین مہینہ تھا۔
لیکن بیشتر توجہ ملٹری کے خفیہ کاغذات پر رہی جنہیں انٹرنیٹ ویب سائٹ وکی لیکس نے پوسٹ کردیا۔ ان کاغذات سے اندازہ ہوا کہ فوج کو افغانستان میں کتنی دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ امریکی کانگریس کے لبرل ارکان جو ایک عرصے سے افغانستا ن کی جنگ پر تنقید کرتے رہے ہیں، اُنھوں نے اس موقع پر اپنی تنقید میں اضافہ کر دیا۔ ایوان نمائندگان میں ریاست کیلے فورنیا کی نمائندہ لین ولسیی نے کہا کہ ’’میں سمجھتی ہوں کہ یہ جنگ ایک المناک ناکامی ہے جس سے ہمارے قومی مفادات کو مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے۔ امریکی عوام کا پیمانہ صبر لبریز ہو چلا ہے۔ اس ہفتے جنگ کی فنڈنگ کے خلاف114ارکان نے ووٹ دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس نےبھی عوام کے جذبات کی ترجمانی شروع کردی ہے‘‘۔
ولیسی ایوانِ نمائندگان میں افغانستان اورعراق کے لیے جنگ کی فنڈنگ کے بِل کا حوالہ دے رہی تھیں جس کے حق میں 308 اور مخالفت میں 114 ووٹ آئے۔ اس طرح یہ بِل تو منظور ہو گیا لیکن 102 ڈیموکریٹس اور 12 ریپبلیکنز نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔ گذشتہ سال صرف 32 ڈیموکریٹس نے اسی قسم کے بل کی مخالفت کی تھی۔
صدر اوباما سمیت انتظامیہ کے عہدے داروں نے خفیہ کاغذات کو منظر عام پر لانے کی مذمت کی اوراسے خطرناک حرکت قرار دیا لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ وکی لیکس نے جو چیزیں ظاہر کی ہیں ان سے افغانستان کے مشن کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا کہ’’ان کاغذات میں بہت سی خام معلومات اورانفرادی تاثرات ہیں جو بیشتر سات سال پرانے ہیں۔ ان کا نہ کوئی سیا ق وسباق ہے اور نہ ان کا کوئی تجزیہ کیا گیا ہے۔ ان سے سرکاری موقف یا پالیسی کی نمائندگی نہیں ہوتی اور ،میرے خیال میں، ان سے افغانستان میں ہماری موجودہ حکمت عملی اور اس کی کامیابی کے امکانات کی نفی نہیں ہوتی‘‘
افغانستان کی جنگ کی حمایت کے لیے، صدر اوباما کو ریپبلیکنز پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے، اگر چہ ریپبلیکنز نے دوسرے تمام معاملات میں، ان کے ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں۔
ریپبلیکنز نےعہد کیا ہے کہ وہ افغانستان کی جنگ کے بارے میں، مسٹر اوباما پر مسلسل دباو ڈالتے رہیں گے۔ ایوانِ نمائندگان کے سابق اسپیکر نیوٹ جنکرچ نےواشنگٹن کےامریکن انٹرپرائز انسٹیٹویٹ میں ایک حالیہ تقریر میں کہا کہ’’افغانستان میں شکست کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا بھر میں اس کے اخلاقی اثرات بہت نقصان دہ ہوں گے۔ انتہا پسند جہادیوں کے حوصلے بلند ہو جائیں گے اورمغربی تہذیب کو بے اندازہ نقصان ہوگا۔ بڑی طاقتوں کو جنگ شروع کرتے وقت بہت احتیاط سے کام لینا چاہیئے لیکن اگر وہ کوئی جنگ شروع کردیں تو پھر تو پھر ان کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہِیئے اورجیت کو یقینی بنانا چاہیئے‘‘۔
2012ء کی صدارتی انتخاب میں جو بہت سے ریپبلیکن، امید وار بننے کے بارے میں سوچ رہے ہیں ان میں جنکرچ بھی شامل ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ حالیہ چند مہینوں میں افغانستان کی جنگ کے بارے میں عوامی حمایت کم ہوتی جا رہی ہے۔ Quinnipiac یونیورسٹی کے تازہ ترین جائزے کے مطابق 43 فیصد لوگ جنگ کے بارے میں صدر اوباما کی پالیسی کے حق میں ہیں جب کہ 46 فیصد ان کے خلاف ہیں۔
جان میولراوہایواسٹیٹ یونیورسٹی میں رائے عامہ کے جائزوں کی نگرانی کرتے ہیں کہ’’سوال یہ ہے کہ اگر اس جنگ میں پوری طرح کامیابی مِل بھی جاتی ہے تو کیا اس پر جو خرچ آ رہا ہے اور جتنی کوشش کرنی پڑ رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے جنگ کو جاری رکھنا چاہیئے؟ میرے خیال میں شروع میں اس جنگ کے لیے جتنی حمایت موجود تھی، وہ اگر مخالفت میں تبدیل نہیں ہوئی ہے تو بھی لوگوں کو ایک طر ح سے بے زاری اور بے اطمینانی کا احساس ہونے لگا ہے‘‘۔
اوباما انتظامیہ اگلے سال جولائی میں افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی شروع کرنا چاہے گی اگر حالات اس کی اجازت دیں۔ امریکہ محکمہ خارجہ کی سابق اسسٹنٹ سکریٹری ٹیرایسٹا سیک آرفر کہتی ہیں کہ صدر کی پارٹی کے لبرل ارکان کی طرف سے ان پر فوجوں کی واپسی کے لیئے دباو میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ لیکن جہاں تک اس سال کانگریس کے انتخابات کا تعلق ہے رائے عامہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی ووٹروں کے لیئے افغانستان کی جنگ کے مقابلے میں معیشت اور روزگار کے مواقع کی اہمیت کہیں زیادہ ہے۔