چین کی فوج کے سربراہ جنرل فانگ فینگ ہوئی افغانستان کے دارالحکومت کابل میں افغان قیادت کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف چار ملکی اتحاد پر بات چیت کر رہے ہیں۔
چین کے انسداد دہشت گردی کے مجوزہ منصوبے میں چین، پاکستان، افغانستان اور تاجکستان شامل ہوں گے۔ ان تین ممالک کی سرحد چین کے مغربی علاقوں سے ملتی ہے جہاں آباد ایغور مسلم آبادی میں بیجنگ مخالف جذبات پائے جاتے ہیں۔
چین کے سنکیانگ صوبے میں آباد ترک نسل سے تعلق رکھنے والی ایغور برادری 1980 کی دہائی سے وسیع تر سیاسی اور مذہبی خود مختاری کے لیے کوششیں کر رہی ہے۔
پاکستان، افغانستان اور تاجکستان کئی دہائیوں سے مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
خیال ہے کہ چین کی ایغور آبادی سے تعلق رکھنے والے کچھ شدت پسند گروہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں اپنے ٹھکانوں سے چین میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے صدر اشرف غنی کے نائب ترجمان سید ظفر ہاشمی نے کہا کہ چینی فوج کے سربراہ نے مجوزہ منصوبے میں افغانستان کو شرکت کی دعوت دی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ ’’صدر غنی نے منصوبے کی حمایت کی ہے۔‘‘
سید ظفر ہاشمی نے مزید کہا کہ صدر غنی نے جنرل فانگ کو بتایا کہ ’’اچھے اور برے دہشت گردوں‘‘ میں کوئی تفریق نہیں کی جانی چاہیئے۔
افغانستان طویل عرصہ سے پاکستان پر یہ الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ صرف ان دہشت گردوں کو نشانہ بنا رہا ہے جو پاکستان کے اندر کارروائیوں میں ملوث ہیں جبکہ ان عناصر سے صرف نظر کر رہا ہے جو پاکستان سے باہر افغانستان کے اندر کارروائیاں کر رہے ہیں۔
پاکستان ان دعووں کی تردید کرتا رہا ہے اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کا الزام افغانستان میں چھپے گروہوں پر عائد کرتا رہا ہے۔
وائس آف امریکہ کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال میں امریکہ کے محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں طویل المدت استحکام لانے کے لیے چین یا دیگر ممالک کی طرف سے کسی بھی کردار کا خیر مقدم کرے گا۔
سید ظفر ہاشمی نے کہا کہ ’’چین ہمارا ہمسایہ ہے اور اس کا مفاد مضبوط، مستحکم اور دہشت گردی سے پاک افغانستان سے وابستہ ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’میں اس پوزیشن میں نہیں کہ میں مجوزہ منصوبے پر کوئی تبصرہ کر سکوں کیونکہ جیسا کہ میں سمجھا ہوں یہ ابھی پیش کیا گیا ہے۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ صدر غنی نے اس کے بارے میں مثبت باتیں کہیں۔ ایک بار پھر میں بین الاقوامی برادری کی مستقبل میں ایک مضبوط اور مستحکم افغانستان کے لیے کوششوں کا خیر مقدم کروں گا۔‘‘
چین کی طرف سے تجویز کیے گئے انسداد دہشت گردی کے منصوبے کی مزید تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔