امریکہ افغانستان سے باہر نکلے گا تو سرمایہ لگانے والے ملک جیسے چین علاقے میں زیادہ سفارتی اور اقتصادی اثر و رسوخ استعمال کر سکیں گے ۔
اسلام آباد —
آنے والے سال میں ، افغانستان اپنی سیکورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی تیاریاں جاری رکھے گا ۔ بین الاقوامی لڑاکا فوجی 2014 میں افغانستان سے اپنی واپسی مکمل کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں ۔ ایک طرف یہ کام جاری ہے اور دوسری طرف چین، ایران اور پاکستان کی توجہ اپنے تباہ حال ہمسایے کے مستقبل پر ہے جو برسوں کی جنگ سے تباہ ہو چکا ہے ۔
افغانستان سے غیر ملکی لڑاکا فوجیوں کے نکلنے کی تاریخ ایک سال اور قریب آ گئی ہے اور افغان فوج ملک کی سیکورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی تیاری میں مصروف ہے۔
لیکن ملک میں سیکورٹی فورسز کی تعداد تین لاکھ ہو جانے کے بعد بھی، افغانستان کو طالبان، القاعدہ اور حقانی نیٹ ورکس کی طرف سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
سیاسی تجزیہ کار امتیاز گُل کہتےہیں کہ پاکستان سمیت افغانستان کے ہمسایوں نے وہاں سیاسی استحکام قائم کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں کیوں کہ وہاں عدم استحکام سے ان تمام ملکوں کے لیے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
’’میرے خیال میں پاکستان اور دوسرے کئی ملکوں نے افغانستان کے بارے میں اپنے خیالات تبدیل کر لیے ہیں ۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ خود ان کے اپنے علاقے میں عدم استحکام سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان میں حالات زیادہ سے زیادہ حد تک مستحکم ہو جائیں، اور اس مقصد کے لیے ان تمام ملکوں کو مل جل کر کام کرنا ہو گا۔‘‘
گذشتہ سال کے دوران، افغانستان کے اتحادی ممالک شکاگو میں اور دوسرے مقامات پر ملے اور کم از کم چار ارب ڈالر کی امداد کے وعدے کیے اور اگلے عشرے کے دوران ملک کے مستقبل کا خاکہ پیش کیا۔
لیکن افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے سبک دوش ہونے والے خصوصی نمائندے مارک گراسمین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ وعدے محض ایک قدم ہیں۔
’’اس کا فائدہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب لوگ اپنے وعدوں کا پاس کریں، اور ہم ایک محفوظ، مستحکم اور خوشحال علاقے کے اندر ہی ایک محفوظ، مستحکم اور خوشحال افغانستان کی صحیح معنوں میں حمایت کر سکتے ہیں۔‘‘
امریکہ افغانستان سے باہر نکلے گا تو سرمایہ لگانے والے ملک جیسے چین علاقے میں زیادہ سفارتی اور اقتصادی اثر و رسوخ استعمال کر سکیں گے ۔
جرمن مارشل فنڈ کے تجزیہ کار اینڈریو سمالز نے بیجنگ میں وائس آف امریکہ سے کہا کہ پاکستان کے ساتھ چین کے دوستانہ تعلقات بے حد اہم ہیں۔
’’افغان بڑی شدت سے چاہتے تھے کہ چینی آئیں اور سرمایہ کاری کریں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چین ان چند ملکوں میں شامل ہے جن پر پاکستان اعتماد کرتا ہے۔ لہٰذا عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہوا کہ طالبان سمیت بہت سی مختلف پارٹیاں، افغانستان میں سرمایہ لگانے والے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں، چینیوں کے پراجیکٹس کو کامیاب ہونے کا موقع دینے کو تیار ہو جائیں گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ چین پاکستان پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنے پر تیار ہوگا، اور پھر پاکستان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا تا کہ چینی منصوبوں کو کام کرنے کا موقع ملے ۔ یہ موقع شاید دوسرے سرمایہ کاروں کو نہ ملے ۔‘‘
افغانستان کے مغرب میں، ایران نے اپنے اس ہمسایہ ملک کے ساتھ پہلے ہی مضبوط ثقافتی اور تجارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری کارل انڈرفرتھ کہتے ہیں کہ ایران اس اثر و رسوخ کو کیسے استعمال کرتا ہے، یہ بات انتہائی اہم ہے۔
’’لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایران ایسے ملکوں کے گروپوں میں شامل ہو سکتا ہے جو افغانستان کو طالبان دور میں واپس جانے سے روکنے کی جدو جہد کریں گے، اور اسے زیادہ جمہوری اور ترقی پسند راہ اختیار کرنے اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں مدد دیں گے۔‘‘
افغانستان، اس کے ہمسایے اور اتحادی ان تمام مسائل میں کس طرح ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں، اس سے اس ملک کے مستقبل کا تعین کرنے میں مدد ملے گی۔
افغانستان سے غیر ملکی لڑاکا فوجیوں کے نکلنے کی تاریخ ایک سال اور قریب آ گئی ہے اور افغان فوج ملک کی سیکورٹی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کی تیاری میں مصروف ہے۔
لیکن ملک میں سیکورٹی فورسز کی تعداد تین لاکھ ہو جانے کے بعد بھی، افغانستان کو طالبان، القاعدہ اور حقانی نیٹ ورکس کی طرف سے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔
سیاسی تجزیہ کار امتیاز گُل کہتےہیں کہ پاکستان سمیت افغانستان کے ہمسایوں نے وہاں سیاسی استحکام قائم کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں کیوں کہ وہاں عدم استحکام سے ان تمام ملکوں کے لیے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
’’میرے خیال میں پاکستان اور دوسرے کئی ملکوں نے افغانستان کے بارے میں اپنے خیالات تبدیل کر لیے ہیں ۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ خود ان کے اپنے علاقے میں عدم استحکام سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان میں حالات زیادہ سے زیادہ حد تک مستحکم ہو جائیں، اور اس مقصد کے لیے ان تمام ملکوں کو مل جل کر کام کرنا ہو گا۔‘‘
گذشتہ سال کے دوران، افغانستان کے اتحادی ممالک شکاگو میں اور دوسرے مقامات پر ملے اور کم از کم چار ارب ڈالر کی امداد کے وعدے کیے اور اگلے عشرے کے دوران ملک کے مستقبل کا خاکہ پیش کیا۔
لیکن افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے سبک دوش ہونے والے خصوصی نمائندے مارک گراسمین نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ وعدے محض ایک قدم ہیں۔
’’اس کا فائدہ صرف اس صورت میں ہو سکتا ہے جب لوگ اپنے وعدوں کا پاس کریں، اور ہم ایک محفوظ، مستحکم اور خوشحال علاقے کے اندر ہی ایک محفوظ، مستحکم اور خوشحال افغانستان کی صحیح معنوں میں حمایت کر سکتے ہیں۔‘‘
امریکہ افغانستان سے باہر نکلے گا تو سرمایہ لگانے والے ملک جیسے چین علاقے میں زیادہ سفارتی اور اقتصادی اثر و رسوخ استعمال کر سکیں گے ۔
جرمن مارشل فنڈ کے تجزیہ کار اینڈریو سمالز نے بیجنگ میں وائس آف امریکہ سے کہا کہ پاکستان کے ساتھ چین کے دوستانہ تعلقات بے حد اہم ہیں۔
’’افغان بڑی شدت سے چاہتے تھے کہ چینی آئیں اور سرمایہ کاری کریں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چین ان چند ملکوں میں شامل ہے جن پر پاکستان اعتماد کرتا ہے۔ لہٰذا عملی طور پر اس کا مطلب یہ ہوا کہ طالبان سمیت بہت سی مختلف پارٹیاں، افغانستان میں سرمایہ لگانے والے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں، چینیوں کے پراجیکٹس کو کامیاب ہونے کا موقع دینے کو تیار ہو جائیں گی۔ پھر یہ بھی ہے کہ چین پاکستان پر اپنا اثرو رسوخ استعمال کرنے پر تیار ہوگا، اور پھر پاکستان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا تا کہ چینی منصوبوں کو کام کرنے کا موقع ملے ۔ یہ موقع شاید دوسرے سرمایہ کاروں کو نہ ملے ۔‘‘
افغانستان کے مغرب میں، ایران نے اپنے اس ہمسایہ ملک کے ساتھ پہلے ہی مضبوط ثقافتی اور تجارتی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ کے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری کارل انڈرفرتھ کہتے ہیں کہ ایران اس اثر و رسوخ کو کیسے استعمال کرتا ہے، یہ بات انتہائی اہم ہے۔
’’لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایران ایسے ملکوں کے گروپوں میں شامل ہو سکتا ہے جو افغانستان کو طالبان دور میں واپس جانے سے روکنے کی جدو جہد کریں گے، اور اسے زیادہ جمہوری اور ترقی پسند راہ اختیار کرنے اور ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں مدد دیں گے۔‘‘
افغانستان، اس کے ہمسایے اور اتحادی ان تمام مسائل میں کس طرح ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں، اس سے اس ملک کے مستقبل کا تعین کرنے میں مدد ملے گی۔