جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان میں امن و سلامتی کے علاوہ دیگر کئی مسائل عوام کی پریشانی کا سبب بنے ہوئے اور روزانہ لگ بھگ سات ہزار افغان شہری پاسپورٹ کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں۔
عام طور پر افغان شہری اس وقت تک پاسپورٹ کے لیے درخواست نہیں دیتے جب تک کہ وہ ملک سے باہر سفر کا ارادہ نہ رکھتے ہوں کیونکہ وہ ملک میں پاسپورٹ شناخت کے لیے استعمال نہیں کرتے۔
ان اعداد و شمار کو سامنے رکھا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ہر ماہ دو لاکھ افغان ملک سے باہر سفر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
افغانستان میں پاسپورٹ کے ادارے کے سربراہ جنرل سید عمر صبوری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ادارے کے وفاقی اور صوبائی دفاتر صرف 2,500 پاسپورٹ روزانہ دینے کی استعداد رکھتے ہیں۔
’’یہ نظام روزانہ صرف ایک ہزار پاسپورٹ دینے کے لیے وضع کیا گیا تھا، مگر حالیہ مہینوں میں بڑھتی ہوئی طلب کے باعث ہم دو شفٹوں میں کام کر رہے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں درخواست گزار سارا دن انتظار کرتے ہیں اور ہم بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے اسی قدر ہی کام کر سکتے ہیں۔‘‘
یورپ کا خطرناک سفر
یورپ کے ساحلوں پر نئی زندگی کے انتظار میں شامی پناہ گزینوں کے بعد افغان پناہ گزینوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
ان میں سے اکثر یورپ میں بہتر زندگی کی تلاش میں خطرناک سفر اختیار کرتے ہیں۔
ہنگری میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے بابر بلوچ کے مطابق صرف اس سال ہنگری میں پناہ کی درخواست دینے والے 140,000 افراد میں سے 40,000 افغان تھے۔
’’(ان میں سے اکثر) کشتیوں پر آتے ہیں جو وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے آسانی سے الٹ جاتی ہیں اور بہت سوں کے ساتھ ایسا ہی ہوا جس سے لاتعداد افراد سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔‘‘
افغانستان کے شمالی صوبے پروان میں مقیم زلمے رسولی نے خود اس سفر کا تجربہ کیا۔
’’دو سال قبل میں نے ملک چھوڑنے اور یورپ جانے کا فیصلہ کیا۔ کئی ماہ سفر اور شدید مشکلات کے بعد میں ایران اور ترکی کے راستے یونان پہنچا۔ مجھے یونان کی سرحد پر پکڑ لیا گیا اور واپس افغانستان بھیج دیا گیا۔‘‘
رسولی نے ایک کشتی کو الٹتے ہوئے دیکھا اور ان کے خیال میں اس میں سوار 40 مسافروں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔ مگر شدید خطرات کے باوجود وہ دوبارہ یہ سفر کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
ان کے بقول افغانستان میں ان کے لیے کچھ نہیں اور وہ جلد ہی ملک چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
پیر کو سینکڑوں افغان نوجوانوں نے ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے خلاف کابل میں مظاہرہ کیا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے اس مسئلے کو حل نہ کیا تو ملک سے بڑے پیمانے پر آبادی کا انخلا ہو سکتا ہے۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے مواقع
تاہم حنیف صوفی زادہ نے ایک مختلف تصویر کھینچی۔ انہوں نے کورنیل یونیورسٹی سے فل برائٹ سکالر شپ پر پبلک ایڈمنسٹریشن میں تعلیم حاصل کی اور ملک واپسی پر سرکاری ملازمت اختیار کی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے شعبہ تعلیم میں ملازمتوں کے بے شمار مواقع ہیں۔
صوفی زادہ ان 450 افغان طلبہ میں سے ایک ہیں جو سکالرشپ لے کر امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک کے حالات کے باعث ان کے ساتھیوں میں سے بہت سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد امریکہ میں ہی رہ گئے جبکہ کئی واپس آگئے اور مختلف سرکاری عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔
افغانستان کے ابتر حالات کے باوجود افغان حکومت اور عالمی تنظیموں میں ہزاروں افراد کام کرتے ہیں۔
گزشتہ 14 سالوں میں بیسیوں ہزار افغان تعلیم حاصل کرنے ملک سے باہر گئے۔ اسی طرح بیسیوں ہزار طلبا نے مقامی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی جو مواقع ملنے پر افغان معیشت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
مگر نوجوان آبادی دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتی ہے۔ روزگار سے وابستہ نوجوان ملکی معیشت میں حصہ ڈالتے ہیں جبکہ بے روزگار آبادی عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔ پیر کو کابل میں مظاہرے میں شریک ایک نوجوان نے کہا کہ ’’بے روزگاری ہی افغان نوجوانوں کو باغیوں میں شامل ہونے اور منشیات استعمال کرنے کی طرف دھکیلتی ہے۔‘‘