پیرکے روز افغان دار الحکومت میں 50 جوڑوں نے اپنی شادیاں ایک مشترکہ تقریب میں منعقد کیں ۔
اس غربت زدہ ملک میں روائتی شادیوں میں استطاعت سے بڑھ کر کیے جانے والے اخراجات کو کم کرنے کے لیے اب اپنی شادیاں کسی اجتماعی تقریب میں منعقد کرنے کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔
شادیوں کی یہ اجتماعی تقریب اگرچہ کابل کے درجنوں شاندار شادی ہالز میں سے ایک میں ہوئی لیکن اس میں قدرے سادگی کو ملحوظ رکھا گیا تھا۔
افغانستان میں 2021 میں جب سے طالبان اقتدار میں واپس آئے ہیں، شادیوں کی تقریبات اب کم اہمیت کا معاملہ بن گئی ہیں کیوں کہ طالبان نے ڈانس اور میوزک کو غیر شرعی قرار دے کر ان پر پابندی عائد کر دی ہے ۔
تقریب کا احوال
کابل کے ہوائی اڈے کے نزدیک سٹی اسٹار شادی ہال کے سامنے لگ بھگ ایک سو مرد گروپوں کی شکل میں گفتگو کر رہے تھے ۔ وہاں ایک بھی خاتون موجود نہیں تھی ۔
نئے شادی شدہ جوڑوں کی رخصتی کے لیے کاروں کو سبز پٹیوں اور سرخ پلاسٹک کے پھولوں سے دل کی شکل دے کر سجایا تھا۔
اٹھارہ سالہ رو ح اللہ رضائی نے اپنی دلہن کے ساتھ اس جگہ سے رخصت ہونے سے قبل اے ایف پی کو بتایا کہ وہ اپنی شادی کی تقریب کے اخراجات خود سے برداشت نہیں کر سکتے تھے ۔
انہوں نے بتایا کہ، "ہمیں ایک روائتی شادی کے لیے کم از کم دو سے ڈھائی لاکھ افغانی( افغان کرنسی) خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ (جو 2800 سے 3600 ڈالر کے مساوی ہے) لیکن یہ اجتماعی تقریب دس سے پندرہ ہزار افغانی میں انجام پا جائے گی ۔"
ہزارہ شیعہ اقلیت سے تعلق رکھنے والے صوبے غور کے نوجوان، روح اللہ کئی ملازمتیں کرنے کے بعد بمشکل 350 افغانی یومیہ کماتے ہیں ۔
سفیدچغے پر واسکٹ پہنے دولہا نے بتایا کہ ہم نے اپنے دونوں خاندانوں کے 35 لوگوں کو اس تقریب میں مدعو کیا تھا جب کہ دوسری صورت میں یہ تعداد 300 سے 400 تک ہوتی ۔
اس تقریب کا انعقاد ایک تنظیم، سیلاب فاؤنڈیشن نے کیا تھا اور اس نے ہر جوڑے کے لیے 1600 ڈالر کے مساوی عطیہ دیا تھا، جو دنیا کے ایک غریب ترین ملک میں ایک بڑی رقم ہے۔
نئی شادی شدہ زندگی کی شروعات کرنے والے ہر جوڑے کو، ایک کیک،ایک قالین ، کمبل اور کچھ گھریلو سازو سامان کے سمیت ضروری اشیا کے ساتھ رخصت کیا گیا ۔
ایک ہزار مہمان
روائتی افغان شال پہنے سینکڑوں مہمان مردوں نے پھولوں سے آراستہ ایک بڑے ایئر کنڈیشنڈ ہال میں منعقد اس تقریب میں شرکت کی۔
امر بالمعروف و نہی عن المنکر وزارت کے ایک عہدے دار نے ایک تقریر کی اور پھر قرانی آیات کی تلاوت ہوئی ۔
دلہنوں کو علیحدہ بٹھایاگیا تھا،اور صحافیوں کو ان سے رابطے کی ممانعت تھی۔ خواتین صرف لنچ کے بعد مکمل پردے کے ساتھ سامنے آئیں ۔
افغانستان میں شادی کی نسبتاً بڑی اور زیادہ مہنگی تقریبات میں ایک ہزار لوگوں کو مدعو کیا جاسکتا ہے اور اس پر 20 ہزار ڈالر سے زیادہ کا خرچہ ہوتا ہے۔
پیر کی اس تقریب کے لیے 600 جوڑوں نے درخواست دی تھی ۔ چنے جانے والے کچھ خوش قسمت جوڑوں کے لیے یہ ایک طویل انتظار تھا۔
کابل کے ایک 23سالہ کاشت کار سمیع اللہ زمانی نے بتایا ،" مجھے اس دن کے لیے تین سال تک انتظار کرنا پڑا۔"
اپنی منگیتر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "میں اب اسے دیکھنے کے لیے مزید انتظار نہیں کر سکتا۔ "
اس رپورٹ کا مواداے ایف پی سے لیا گیا ہے۔