امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ بھارت کی جانب سے افغانستان میں جاری تعاون کی حمایت کرتا ہے، باوجود اس بات کے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ وہاں سے فوجی انخلا کے خواہاں ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے، 'اے ایف پی' نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت افغانستان کی حکومت کا پرجوش حامی ہے، اور وہ سال 2001ء سے اب تک وہاں تین ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔
امریکہ نے 2001 میں القاعدہ کی جانب سے امریکہ میں مہلک حملوں کے بعد افغانستان پر حملہ کر کے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا جس نے القاعدہ کے جنگجوؤں کو اپنے ملک میں پناہ دے رکھی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ میں افغان امور کی سربراہ، نینسی ایزو جیکسن نے کہا ہے کہ ''افغانستان میں خاصی بڑی سرمایہ کاری اور امدادی رقم فراہم کرنے پر، امریکہ بھارت کے اقدامات کا خیرمقدم کرتا ہے''۔
'ہڈسن انسٹی ٹیوٹ' میں افغانستان میں بھارت کے کردار کے موضوع پر اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ''ہم ان کوششوں کی حمایت جاری رکھیں گے جن کی مدد سے افغانستان میں قابلِ تحسین اور دیرپہ نتائج حاصل کیے جا سکیں، جس سے ہماری سرمایہ کاری کا تحفظ ہو اور جو ہم افغانستان کے بہتر مستقبل کے لیے کرتے آئے ہیں''۔
بھارت نے افغانستان میں پارلیمان کی نئی عمارت تعمیر کی جبکہ اُس نے اپنے پُر اثر ثقافتی ورثے کی مدد سے افغانوں کو اپنی جانب متوجہ کیا جس میں بالی وڈ فلمیں بھی شامل ہیں۔
تاہم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں بھارت کی وابستگی پاکستان کے لیے پریشانی کا باعث رہی ہے۔
اس سال کے اوائل میں افغانستان سے فوجوں کے انخلا اور امریکہ کی طویل ترین لڑائی ختم کرنے پر طالبان سے سمجھوتا طے کیا گیا۔
لیکن ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے معاملے پر ستمبر میں ٹرمپ نے طالبان کو واشنگٹن کے قریب منعقدہ اجلاس میں شرکت کی دعوت واپس لے لی تھی۔
امریکہ طالبان مذاکرات کے لیے پاکستان نے سہولت کاری کا کردار ادا کیا تھا اور اس سے قبل رواں سال وزیر اعظم عمران خان نے اس پر افسوس کا اظہار کیا تھا کہ امن معاہدے پر دستخط کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔
جمعرات کے روز صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے فراہم کردہ سہولت کاری کے کردار کو سراہا جس کے نتیجے میں افغانستان میں طالبان نے دو مغربی یرغمالیوں کو رہائی دی۔
واشنگٹن میں بھارتی سفیر، ہرش وردھان شرنگلہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں ہونے والے کسی بھی تصفیے کے لیے لازم ہے کہ یہ پائیدار ہو، اور ''اس میں ایسی کوئی گنجائش باقی نہ ہو جس سے دہشت گرد عناصر اپنے قدم جما سکیں''۔
انھوں نے کہا کہ ''یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ دہشت گردوں کو یہ پیغام دیا جائے کہ جمہوریتیں دہشت گردی کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالا کرتیں؛ اور 'امارات' اور 'جمہوریہ' کی آپسی نظریاتی لڑائی میں فتح ہمیشہ عوام کی ہی ہوتی ہے''۔