'پنجروں میں رہنے والے پرندے سمجھتے ہیں کہ اُڑنا کوئی بیماری ہے'

  • مبشر علی زیدی

Afrasiab Khatak

غیر جمہوری عناصر کو مضبوط کرنے کے لیے منظم طریقے سے جمہوریت کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا، سیاست کو گالی بنادیا گیا، پارلیمان کو برا بھلا کہنا فیشن بن گیا

پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کئی بڑے نام ماضی میں طلبہ تنظیموں کے رہنما رہ چکے ہیں۔ سابق فوجی صدر ضیا الحق نے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی تھی اور مبصرین اس اقدام کو سیاست کی نرسری ختم کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔

وائس آف امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ طلبہ سیاست سے پاکستان کو کیا ملا؟ پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ضیا الحق کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس پابندی کو ختم کیوں نہیں کیا۔

اس سلسلے میں سینئر سیاست دان اور سابق طالب علم رہنما افراسیاب خٹک سے خصوصی گفتگو پیش کی جارہی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

یونیورسٹیوں میں باہر سے مداخلت نے معاشرے کو کمزور کیا

سوال: آپ کس سال میں کالج پہنچے اور کون سی طلبہ تنظیم سے وابستہ ہوئے؟

افراسیاب خٹک: میں 1968 میں گورنمنٹ کالج بنوں میں ایف اے کا طالب علم تھا۔ جنرل ایوب خاں کی آمریت کے خلاف ایک عوامی ابھار، سیاسی ابھار وجود میں آرہا تھا۔ اس دور میں بہت سی طلبہ تنظیمیں بنیں۔ این ایس ایف تھی، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن تھی، سندھ میں کئی تنظیمیں تھیں۔ ہمارے ہاں پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن بنی اور میں اس میں شامل ہوا۔

ان کے بقول، اس وقت بنیادی نعرہ ایوب خان کی آمریت اور ون یونٹ کا خاتمہ تھا۔ تب طلبہ تنظیمیوں پر سیاسی جماعتوں کا زیادہ اثر نہیں تھا۔ لیکن جب 1970 میں الیکشن ہوئے تو قربت بڑھ گئی۔ ایوب خان کے خلاف تحریک میں طلبہ کی بہت بڑی تعداد شریک ہوئی۔ ان دنوں عالمی سطح پر بھی نوجوان بہت سرگرم تھے۔ بائیں بازو کے خیالات زور پکڑ رہے تھے۔ پاکستان میں مزدور اور کسان بھی تحریک میں شامل ہوئے لیکن ہراول دستے کا کردار طلبہ نے ادا کیا۔

سوال: پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کا تعلق عوامی نیشنل پارٹی سے تھا؟

افراسیاب خٹک: اس وقت اے این پی نہیں تھی بلکہ نیپ تھی جس پر 1975 میں پابندی لگادی گئی۔ پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن اس کے قریب تھی لیکن اپنی جگہ خود مختار بھی تھی۔ اس کا کام طلبہ میں سیاسی، سماجی اور ثقافتی شعور پیدا کرنا تھا۔ یہ نہ صرف ہمارے صوبے میں بلکہ بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں بھی سب سے بڑی طلبہ تنظیم بن گئی تھی۔

سوال: کیا آپ نے کالج یونین کے الیکشن میں کبھی حصہ لیا؟

افراسیاب خٹک: میں بنوں کالج میں جنرل سیکریٹری کے عہدے پر منتخب ہوا۔ اس کی یونین کا نام کرم اسٹوڈنٹس یونین ہوتا تھا۔ پھر میں پشاور یونیورسٹی میں آیا۔ ایوب خان نے الیکشن پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ یونیورسٹی یونین کے پہلے الیکشن 1974 میں ہوئے۔ عبدالعلی خان ہمارے وائس چانسلر تھے۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے ہمیں تمام سہولتیں فراہم کیں۔ ہم نے تقریریں کی، اپنی انتخابی مہم چلائی۔ یونیورسٹی کے علاوہ میڈیکل کالج تھا، زرعی کالج تھا، اسلامیہ کالج تھا، لا کالج تھا۔ ان سب میں بھی یونینز موجود تھیں اور ان کے انتخابات ہوتے تھے۔

کالج یونیورسٹی تقریری مقابلے ہوتے تھے۔ ان مقابلوں میں ایک قائد ایوان ہوتا تھا اور ایک قائد حزب اختلاف۔ قائد ایوان قرارداد پیش کرتا اور قائد حزب اختلاف اس کی مخالفت کرتا۔ بعد میں آنے والے مقررین قرارداد کے حق میں یا مخالفت میں تقریریں کرتے تھے۔ طلبہ دلیل کہنا اور دلیل سننا سیکھتے تھے۔ منطقی طور پر بات کرنے اور سننے کی تربیت ملتی تھی۔

افراسیات خٹک کے مطابق یونیورسٹیاں سول سوسائٹی کا اہم حصہ ہیں۔ نوجوانوں کو تربیت دینے میں ان کا اہم کردار ہے۔ ضیا الحق کے دور تک ان کا یہ کردار قائم رہا۔ آج کل سیاست میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اس وقت کی یونیورسٹی کی طلبہ سیاست سے نکل کر آئے ہیں۔ وہ پڑھائی میں بھی اچھے ہوتے تھے اور اجتماعی اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔

سوال: کیا اس دور کے دوسرے طلبہ رہنماؤں کے نام آپ کو یاد ہیں؟

افراسیاب خٹک: جی ہاں، ہمیں دوسری یونیورسٹیوں کا بھی علم رہتا تھا۔ پنجاب یونیورسٹی میں جاوید ہاشمی تھے۔ پرویز رشید این ایس ایف میں تھے۔ عبدالحئی بلوچ بلوچ استوڈنٹس آرگنائزیشن کے لیڈر تھے۔ اسفندیار ولی خان اور محمود خان اچکزئی بھی پشاور یونیورسٹی میں پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں سرگرم رہے۔

سوال: بہت سی طلبہ تنظیمیں تھیں جن میں نظریاتی اختلافات تھے تو لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہوں گے؟

افراسیاب خٹک: یہ بالکل جھوٹ اور پروپیگنڈا ہے جو ضیا الحق کے دور میں پھیلایا گیا۔ پشاور یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھی، اسلامی جمعیت طلبہ تھی، پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھی۔ ہم تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ دوسروں کی دلیل سنتے۔ لیکن اجتماعی مسائل کے لیے مل کر آواز بلند کرتے تھے۔ مثلاً یحیی خان کے خلاف ہم سب نے مل کر جلوس نکالے۔

ضیا الحق کے دور میں کلاشنکوف آئی۔ پھر بدمعاشی شروع ہوئی۔ تشدد ہمیشہ لاقانونیت اور غیر آئینی اقدامات کی پیداوار ہوتا ہے۔ جب جمہوریت پر شب خون مارا جائے، آئین کو پامال کیا جائے تو پھر قانون کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ لاقانونیت مارشل لا کی وجہ سے پھیلی۔ اس سے پہلے جمہوری فضا تھی اور لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے۔ بھٹو صاحب کی حکومت کے ساتھ ہمارے جھگڑے رہے لیکن یونیورسٹی کی سطح پر تعلقات کبھی خراب نہیں ہوئے۔ جامعہ کی انتظامیہ اور اساتذہ کے ساتھ ہمیشہ احترام کا رشتہ برقرار رہا۔

سوال: طلبہ سیاست کی وجہ سے کبھی آپ کو گرفتار کیا گیا؟

افراسیاب خٹک: کئی بار گرفتار کیا گیا۔ نہ صرف مارشل لا دور میں بلکہ سول حکومت کے زمانے میں بھی گرفتار کیا گیا۔ بھٹو صاحب نے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی حکومت کو توڑا جسے اکثریت کی حمایت حاصل تھی۔ ہم نے اس کے خلاف احتجاج کیا اور گرفتار ہوئے۔ مقدمات کا سامنا کیا۔ نیپ پر پابندی لگی تو انیس سو چھہتر ستتر میں ہمیں گرفتار کیا گیا۔ حیدرآباد سازش کیس کے نام سے اس معاملے میں پچپن لوگ گرفتار کیے گئے۔ میں بھی ان میں سے ایک تھا۔

اُن کے مطابق دوسرے لوگوں میں عبدالولی خان، غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، خیر بخش مری، محمد افضل خان جیسے رہنما تھے۔ ضیا الحق کے مارشل لا میں بھی پکڑدھکڑ ہوئی تو اس کا نشانہ بنے۔ یہ گرفتاریاں یونیورسٹیوں کے جھگڑوں پر نہیں بلکہ حکومتوں سے سیاسی اختلافات پر ہوئیں۔

سوال: ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ طلبہ یونینز کی بحالی سے نوجوانوں کی تعلیم متاثر ہوگی اور وہ سیاست میں پڑجائیں گے۔

افراسیاب خٹک: ضیا الحق کے دور میں کوشش کی گئی کہ معاشرے کو غیر سیاسی بنایا جائے تاکہ کوئی آمریت کے خلاف مزاحمت نہ کرے۔ ہمارے ملک میں پارلیمان کو برا بھلا کہنا فیشن ہوگیا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ پارلیمان میں ڈاکو بیٹھے ہوئے ہیں۔ جیسے باہر سارے فرشتے پھر رہے ہوں۔ ہمارے ملک میں غیر جمہوری عناصر کو مضبوط کرنے کے لیے منظم طریقے سے جمہوریت کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا۔ سیاست کو گالی بنایا گیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر سیاست میں اچھے لوگ حصہ نہیں لیں گے تو اس پر برے لوگوں کا اجارہ ہوجائے گا۔ اگر درمیانے طبقے کے لوگ، پڑھے لکھے لوگ نہیں آئیں گے اور آئین سازی اور قانون سازی میں شامل نہیں ہوں گے، اچھی پالیسیاں نہیں بنائیں گے تو کون بنائے گا؟ باہر سے تو لوگ نہیں آئیں گے۔

سوال: کیا آپ اسی سوچ کے تحت خود سیاست میں آئے یا کسی نے مشورہ دیا؟

افراسیاب خٹک: میں اسی سوچ کے تحت خود سیاست میں آیا۔ بہت سے اور لوگ بھی آئے جو مختلف نظریات کے تھے۔ نظریات کا اختلاف کوئی قبائلی دشمنی نہیں۔ یہ اختلاف غنیمت ہے، رحمت ہے۔ خیالات کے ٹکراؤ سے نئے خیالات جنم لیتے ہیں۔ بحث مباحثہ ہوتا ہے تو ایک پہلو آپ دیکھتے ہیں، ایک میں دیکھتا ہوں۔ دونوں پہلو سامنے آجاتے ہیں۔ سول سوسائٹی اسی طرح پروان چڑھتی ہے۔

ایک بات یہ کہ یونیورسٹیاں خودمختار ہوتی ہیں۔ چونکہ ہم ایک سیکیورٹی اسٹیٹ میں رہ رہے ہیں، ہر چیز ملٹرائز ہوگئی ہے۔ یونیورسٹیوں کو بھی قابو کرلیا گیا ہے۔ انھیں بیوروکریسی اپنے طریقے سے چلانے لگی ہے۔ حالانکہ آئین اور قانون کے تحت یونیورسٹیوں کے تمام اختیارات کو سنڈیکیٹ اور مجلس عاملہ کے پاس ہونا چاہیے۔ باہر سے مائیکرو منیجمنٹ غلط روایت ہے کیونکہ اس سے ہمارا معاشرہ کمزور پڑگیا ہے۔ سول سوسائٹی کی کمزوری پوری ریاست کی کمزوری بن جاتی ہے۔ جب آمرانہ قوتیں قبضہ کرلیتی ہیں تو مغلوب عوام کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔

سوال: اس وقت دو طرح کے نوجوان سیاست میں زیادہ سرگرم ہیں۔ ایک پی ٹی ایم والے اور دوسرے پی ٹی آئی کے کارکن۔ طلبہ یونینز نہیں ہیں اور ان دونوں گروہوں کو تربیت نہیں ملی۔ آپ ان میں کیسے امتیاز کریں گے؟

افراسیاب خٹک: ان میں بہت واضح فرق ہے۔ پی ٹی ایم کے نوجوان، مظلوم لوگوں کے نمائندے ہیں۔ ان پر خاص طور پر گزشتہ پندرہ بیس سال میں بہت ظلم ہوا ہے۔ اس سے پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔ قبائلی علاقوں میں نوآبادیاتی نظام تھا جو انگریز چھوڑ کر گئے تھے اور حالیہ عرصے تک ان پر مسلط رہا۔ پھر جنگیں ہوئیں، دہشت گردی ہوئی۔ وہ دہشت گردوں کے خلاف ریاستی کارروائی کا بھی شکار ہوئے۔ ان کے ہزاروں افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان کے مکان اور کاروبار تباہ ہوگئے۔ انھیں لاکھوں کی تعداد میں بے گھر ہونا پڑا۔ وہ اس درد کی، اس غم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انھیں اس لیے آواز اٹھانا پڑی کہ سیاسی جماعتیں دبک گئی تھیں۔ انھوں نے آواز نہیں اٹھائی جس سے ایک خلا پیدا ہوا اور اسے پی ٹی ایم کے نوجوانوں نے پر کیا۔ وہ بہادری سے پیش پیش رہے لیکن عدم تشدد پر کاربند ہیں۔ عدم تشدد، دلیل اور منطق ان کی طاقت ہے۔

آپ نے جن دوسرے نوجوانوں کی بات کی، میں انھیں بھی برا نہیں کہتا۔ نوجوان جس پارٹی میں بھی ہوں، ہمارا مستقبل ہیں۔ ہمارے بچے ہیں۔ نوجوانوں کا اپنا قصور نہیں ہوتا، وہ وہی کرتے ہیں جو ان کے لیڈر کررہے ہوں، جسے وہ رول ماڈل سمجھ رہے ہوں۔ یہ ر ہنماؤں کی ذمے داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو بحث مباحثہ کرنا سکھائیں۔ اختلاف ضرور کریں لیکن مہذب طریقے سے دلیل کے ساتھ اختلاف کرنا چاہیے۔

سوال: میں نے خوش بخت شجاعت سے سوال کیا کہ طلبہ یونینز بحال کردی جائیں تو کیا وہ پہلے کی طرح سیاست کی نرسری بن سکیں گی۔ ان کا جواب تھا کہ کچھ کہنا مشکل ہے۔ طویل عرصے کے خلا کی وجہ سے کام خراب ہوجاتا ہے۔ آپ کیا کہیں گے؟

افراسیاب خٹک: یہ ایسی بات ہے کہ کسی کو تہہ خانے میں رکھا گیا ہو۔ آپ کہیں کہ اگر اسے روشنی میں لے آئے تو اس کی آنکھیں چندھیا جائیں گی۔ کہیں خراب نہ ہوجائیں۔ دیکھیں، شروع میں تکلیف ہوگی لیکن روشنی میں آنا ہی بہتر ہے۔ آپ نے سنا ہوگا کہ پنجروں میں رہنے والے پرندے سمجھتے ہیں کہ اڑنا کوئی بیماری ہے۔

انہوں نے کہا "میں سمجھتا ہوں کہ آزاد فضا نوجوانوں کی تربیت صحت مندانہ سرگرمی ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ طلبہ یونینز ہوں گی، تقریریں ہوں گی تو نوجوان مباحثہ کرنا سیکھ جائیں گے۔ ان میں قوت برداشت پیدا ہوگی۔ عدم برداشت آمریت کی سب سے بڑی میراث، سب سے منحوس ورثہ ہے۔ ضیا الحق کے دور میں ملک پٹری سے اترا تھا۔ اسے پٹری پر دوبارہ چڑھانے کا طریقہ اسے جمہوری بنانا ہے۔ معاشرے کو جمہوری بنانے کے لیے تعلیمی اداروں کا جمہوری بننا، طلبہ یونیز کو بحال کرنا بہت ضروری ہے۔"