صومالیہ میں قحط سے متاثرہ افراد کو ان کی ضرورت کے مطابق مناسب مقدار میں خوراک حاصل نہیں ہورہی اور افریقہ سے تعلق رکھنے والے کئی راہنماؤں کا کہناہے کہ اس میں ناکامی کی صورت میں سیکیورٹی کے خدشات لاحق ہوسکتے ہیں۔
کینیا کے صدر میوائی کباکی نے نیروبی میں جمعے کے روز اقوام متحدہ کی سربراہ کانفرنس میں شریک وفود کو بتایا کہ قحط کے مارے لوگ بدستور ان کےملک میں واقع امدادی کیمپوں کی طرف آرہے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اسمگلروں نے بڑے پیمانے پرآزادانہ طور پر آنے والے متاثرین کی آڑ میں ، چھوٹے ہتھیاروں اور اسلحے کی ترسیل شروع کردی ہے۔
ایتھوپیا کے وزیر اعظم میلس زیناوی نے کہا کہ ایک اور مسئلہ قحط سے شدید متاثرہ صومالی علاقوں تک امدادی سامان کی ترسیل ہے ، جن میں وہ علاقے بھی شامل ہیں جو الشباب جیسے اسلامی عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔
مسٹر زیناوی نے بین الاقوامی برداری سے اپیل کی کہ وہ ان علاقوں تک امداد کی فراہمی کے لیے مدد کریں، جس سے ان کے ملک میں آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں کمی آئے گی۔
نیروبی میں ہونے والی دوروزہ سربراہ کانفرنس سے مشرقی افریقی ریاستوں کے سربراہ یہ توقع کررہے ہیں اس کے نتیجے میں ایک ایسا ’ایکشن پلان‘ سامنے آسکتا ہے جو قحط اور خشک سالی سے نمٹنے کے قلیل مدتی اور طویل مدتی ضرورتیں پوری کرسکتا ہے۔