پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ پر تنقید کی پاداش میں پی سی بی نے سابق کپتان شاہد آفریدی کا سینٹرل کنٹریکٹ اور بیرون ملک کھیلنے کے لیے اجازت نامہ منسوخ کردیا تھا جس کے خلاف منگل کو شاہد آفریدی نے سندھ ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی۔
اس درخواست پر فوری سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے دور کنی بینچ نے بورڈ کو شاہد آفریدی کے خلاف کیے گئے اقدامات کی وضاحت کے لیے طلب کرلیا ہے۔
منگل کو عدالت کے احاطے کے باہرشاہد آفریدی کے وکلا نے بتایا کہ تین نکات کو چیلنج کیا تھا۔”ایک تو پی سی بی نے جو ہمشائر کاؤنٹی کے لیے کھیلنے کا اجازت نامہ منسوخ کیا ہے وہ غیر قانونی ہے۔ دوسرا ان (آفریدی) کا کنٹریکٹ معطل کرنا بھی غیر قانونی ہے اور تیسرا یہ کہ جو انضباطی کمیٹی بنائی گئی ہے یہ جانبدار ہے اور یہ فیصلہ انصاف کے مطابق نہیں کریں گی۔
کرکٹ بورڈ نے شاہد آفریدی کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انھیں کپتانی سے بھی ہٹا دیا تھا جس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے سابق کپتان نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا تھا اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ کرکٹ بورڈ کی قیادت پر اپنی تنقید کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔
اس پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اعجاز بٹ نے وہ اجازت نامہ منسوخ کردیا جس کی بدولت آفریدی انگلینڈ میں کاؤنٹی کھیلتے تھے۔ ساتھ ہی کرکٹ بورڈ نے شاہد آفریدی کو قوائد وضوابط کی خلاف ورزی پر تین رکنی انضباطی کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہونے کے لیے بھی کہا۔
اس پیش رفت نے شاہد آفریدی کو پاکستان واپس آنے پر مجبور کردیا۔ اتوار کو کراچی پہنچنے کے ایک روز بعد اپنے وکلا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہد آفریدی نے انضباطی کمیٹی کے اراکین پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوں گے۔ آفریدی کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے اراکین خود پی سی بی کے ملازمین ہیں اس لیے انھیں انصاف کی توقع نہیں۔ اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے انھوں نے منگل کو صوبائی ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی انضباطی کمیٹی کا اجلاس بدھ کو ہونا تھا جسے عدالت نے معطل کرتے ہوئے آئندہ سماعت نو جون کو رکھی ہے جس میں بورڈ کے عہدیداروں کو طلب کیا گیا ہے۔