"کینیڈا ایک شائستہ قسم کا ملک ہے ۔ ہم کسی سے اونچی آواز میں بات نہیں کرتے ، ہم کبھی بد تہذیبی کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔۔۔ کچھ لوگوں نے اس رویے سے فائدہ اٹھایا ہے اور اپنی حدود پار کرتے ہوئےکافی دور تک چلے گئے ۔"
یہ الفاظ ہیں قومی سلامتی کے ماہر اور کینیڈا کی انٹیلی جنس کے ایک سابق سینئر عہدے دار مائیکل جوناو کیٹسویا کے جنہوں نےاے ایف پی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے مزید کہا کہ قومی سلامتی کے حوالے سے ہم بے وقوفی کی حد تک سادہ لوح ہو گئے ہیں۔
سال 1990 میں کینیڈا کی سیکیورٹی انٹیلی جنس سروس کے ایشیا پیسیفک بیورو کے سابق سر براہ مائیکل جوناو کیٹسویا کا دعویٰ ہے کہ بھارتی مداخلت کئی عشروں سے جاری ہے ۔
کئی ماہرین کاکہنا ہے کہ اوٹوا اور نئی دہلی کے درمیان ایک مایوس کن سفارتی بحران کینیڈا کی جانب سے قومی سلامتی پر سنجیدگی کے فقدان کو اجاگر کرتا ہے جب کہ شمالی امریکہ کے اس ملک میں غیر ممالک مداخلت کررہے ہیں۔
بھارت اور کینیڈا کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات اس ہفتے کے شروع میں مزید خراب ہو گئے جب کینیڈا نے وینکوور کے قریب جون میں ایک علیحدگی پسند سکھ کی ہلاکت میں بھارتی حکومت کے ممکنہ طور پر ملوث ہونے کا مسئلہ اٹھایا ۔
مانٹریال کی یونیورسٹی آف کیوبک میں اسٹریٹیجک اینڈ ڈپلومیٹک اسٹڈیز کے پروفیسر چارلس فلیپ ڈیوڈ کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ بحران بہت ہی زیادہ بڑا ہے ۔
اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اوٹوا ایک طویل عرصےسے اپنے علاقے میں غیر ملکی مداخلت کے بارے میں انتباہی سگنل موصول کررہا تھا۔
ڈیوڈ کے مطابق ، حالیہ برسوں میں عالمی منظر نامے میں واقع ہونے والی تبدیلی جس میں یوکرین کی وجہ سے مزید تیزی آئی ہے کینیڈا کو مجبور کررہی ہے کہ وہ کیمپوں کا انتخاب کرے اور زیادہ سخت اور زیادہ مضبوط موقف اپنائے۔
لیکن انہوں نے کہا کہ ابھی تک کینیڈا اس سلسلے میں زیادہ فعال نہیں تھا جس کی عکاسی اس کی جانب سے مقصد ، وسائل یا قیادت کے فقدان سے ہورہی تھی۔
SEE ALSO: بھارت ہردیپ سنگھ کے قتل کی تحقیقات میں کینیڈا سے تعاون کرے: امریکہڈیوڈ نے زور دیاا کہ ہمیں بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ پالیسی کو اس سے کہیں زیادہ سنجیدگی سے لینا چاہیے جتنا کہ ہم ایک طویل عرصےسے لے رہے تھے۔
یونیورسٹی آف اوٹوا میں ان کے ایک ساتھی نے کہا کہ کینیڈا نے گزشتہ ایک یا دو جنریشن سے اپنی خارجہ پالیسی کا جائزہ نہیں لیا ہے ۔
پبلک اور انٹر نیشنل ریلیشنز کے پروفیسر جون پیکر نے اے ایف پی کو بتایا کہ ، قطع نظر اس کے کہ کینیڈا میں کونسی سیاسی جماعت اقتدار میں تھی ، یہ ہماری حکومت کی ایک ناکامی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ہمار ا خیال ہے کہ ان مطلق العنان حکومتوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے جو کینیڈا کی سر زمین پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہی ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ کینیڈا کے شہری تین سمندروں اور دوست پڑوسیوں کے گرد گھرا ہونے کی وجہ سے خود کو محفوظ محسوس کرتے تھے ۔ لیکن وہ وقت بیت گیا۔ اب ان سمندروں میں در اندازی ناممکن نہیں رہی ۔
SEE ALSO: بھارت، کینیڈا سفارتی کشیدگی کا نئی دہلی پر کیا اثر پڑے گا؟سادہ لوح کینیڈا
پیکر کے مطابق بھارت کے ساتھ کشیدگیوں نے ثابت کیا ہے کہ دنیا تبدیل ہو چکی ہے اور ہمیں اب اس کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہونا ہوگا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم شاید قدرے سادہ لوح ، اورشاید اپنے اقتدار اعلیٰ کے دفاع میں زیادہ تیز نہیں رہے۔
بھارت کے علاوہ اوٹوا کے چین کے ساتھ تعلقات بھی اتنے ہی کشیدہ ہیں ۔ دسمبر 2018 میںک امریکہ کے وارنٹ پر وینکوور میں چین کے ٹیلی کام کی ایک سینئر ایگزیکٹیو کی گرفتاری اور بیجنگ کی جانب سے جوابی طور پر کینیڈا کے دو شہریوں کو جاسوسی کے الزامات میں قید کرنے سے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے ۔
ستمبر 2021 میں ان تینوں کو اس کے بعد رہا کر دیا گیا جب واوے کی ایگزیکٹیو کے خلاف الزامات کے حوالے سے امریکی پراسیکیوٹرز کے ساتھ ایک معاہدہ طے پا گیا ۔
SEE ALSO: خالصتان تحریک بھارت اور کینیڈا کے درمیان تنازع کا سبب کیوں؟قومی سلامتی کے ماہر اور کینیڈا کی انٹیلی جنس کے ایک سابق سینئر عہدے دار مائیکل جوناو کیٹسویا کا خیال ہے کہ کینیڈا اب خود کو ایک دوراہے پر پاتا ہے ۔
کئی ماہ کے بحث مباحثے اور التو ا کے بعد اس ماہ کے شروع میں اوٹوا نے اپنے الیکٹورل اور ڈیمو کریٹک انسٹی ٹیوشنز میں غیر ملکی مداخلت ، خاص طور پر چین کی مداخلت کے بارے میں سرکاری طور پر ایک پبلک انکوائری شروع کی ۔
SEE ALSO: کینیڈا: سکھ رہنما کے قتل میں بھارتی ایجنٹوں کے ملوث ہونے کی چھان بینجوناؤ نے کہا کہ پارٹی خطوط پر حکومتوں کی بے عملی کا نتیجہ نئی دہلی کے ساتھ تعلقات میں شدید خرابی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ ان مسائل کے بارے میں جنہوں نے کینیڈا کی سفارت کاری کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اجتماعی آگاہی ضروری ہے۔ اس سے ہماری جمہوریتیں فی الواقع کمزور ہور ہی ہیں۔
( اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے ۔)