کیا آپ آج کے دور میں کسی ایسے غار کا تصور کر سکتے جسے کسی تنہا شخص نے کسی دور دراز ساحل پر ایک سخت چٹان کو کھود کر بنایا ہو ، پھر اس غار میں پچاس سال تک اکیلے ہی کام کر کے اسے ایک ایسی منفرد رہائش گا ہ کی شکل دے دی ہو جس میں رکھی جانے والی ہر چیز کچرے کے کسی ڈھیر سے اکٹھی کی ہو؟ مگر اسے اس مہارت سے سجایا گیا ہو کہ وہ آرٹ کا ایک منفرد نمونہ بن گیا ہو۔ جی ہاں ایک ایسا ہی غار بحیرہ روم کے ایک ساحل پر موجود ہے، جہاں اس وقت ہم آپ کو لیے جا رہے ہیں۔
یہ کہانی ہے تل ابیب کے ایک بے گھر مگر محنت کش شخص نسیم کاہلوں کی جس نے بحیرہ روم کے ایک ساحل پر ایک چٹان میں نہ صرف ایک غارکھودا بلکہ اس غار کو ایک ایسی منفرد اور فنکارانہ زیر زمین رہائش گاہ میں تبدیل کر دیا ہے جس میں متعدد کمروں، سیڑھیوں اور سرنگوں کا ایک نیٹ ورک ہے ، جس کے فرش رنگا رنگ ٹائلوں سے بنے ہیں اور جس کی دیواریں مختلف آرائشی چیزوں سےمزین ہیں ۔
لیکن نسیم کاہلوں کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے غار میں استعمال کی جانے والی تمام چیزیں کچرے کے ڈھیروں سے چنی ہیں،اور جن چیزوں کو لوگوں نےبے کار سمجھ کر پھینک دیا تھا انہوں نے اپنی ذہانت ، فنکاری اور مہارت سے انہیں ایک نئی زندگی دی ہے۔
اس غار کی تعمیر اور آرائش و زیبائش دو چار برس کی بات نہیں ہے بلکہ نصف صدی کا قصہ ہے۔ اس غار میں ٹیلی فون لائن اور بجلی کی سہولت تک موجود ہے۔
کاہلوں، جو اس وقت 77 برس کے ہو چکے ہیں، کہتے ہیں کہ انہیں اپنا یہ گھر بنانے میں 50 برس لگے ہیں۔ اور اب انہیں یہ پریشانی درپیش ہے کہ اسرائیل کی حکومت اتنی محنت اور وقت صرف کر کے بنائے جانے والے گھر سے انہیں بے دخل کرنا چاہتی ہے۔
اسرائیل کے ماحولیاتی تحفظ کے ادارے نے انہیں اس غار سے بے دخلی کا نوٹس بھیجا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کا تعمیراتی ڈھانچہ غیر قانونی ہے اور اس سے ساحلی پٹی کو خطرہ لاحق ہے ۔ کاہلوں اپنی نصف صدی کی محنت کا ثمر چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں اور نوٹس کے خلاف اپیل دائر کر رہے ہیں۔
اس کہانی کی شروعات نصف صدی قبل 1973 میں اس وقت ہوئی جب نسیم کاہلوں نے تل ابیب کے شمال میں ہرزلیہ بیچ پر سمندر سے کچھ فاصلے پر سخت ریتلی چٹانوں کے قریب ایک خیمہ لگا کر اپنا ڈیرہ ڈالا تھا ۔
لیکن سمندر کی لہروں سے اپنے کمزور خیمے کو لاحق خطرے کے پیش نظر وہ کوئی مضبوط ٹھکانہ چاہتے تھے ۔ مگر اس کے لیے ان کے پاس نہ تو وسائل تھے اور نہ ہی کوئی زمین ۔صرف قریب واقع چٹانیں ہی انہیں کوئی مضبوط ٹھکانہ دے سکتی تھیں اور چٹانوں کو کھود نا کسی تنہا انسان کے بس کی بات نہیں تھی ۔
لیکن ایک مضبوط اور خوبصورت گھر بنانے کی سخت ضرورت اورشدید خواہش تھی اور کوہلوں کی جوانی کا دور ۔ پھر کیا تھا ، انہوں نے کدال اٹھائی اور چٹانوں کی کھدائی شروع کر دی ۔
جیسے جیسے عمر ڈھلتی گئی ، غار گہرا ہوتا گیا جو ان کی خواہش کے مطابق ایک مضبوط گھر تو بن گیا مگر وہ اب بھی ایک بے رنگ و روغن غار ہی تھا۔
اب ان کے دل میں اس مضبوط گھر کو ایک خوبصورت گھر میں تبدیل کرنے کی خواہش نے جنم لیا ۔وسائل تو اب بھی نہیں تھے لیکن ان کے پاس وقت اور جذبے کا سرمایہ بہت تھا۔ سو انہوں نے اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے اس کا استعمال جاری رکھا ۔
اس بار انہوں نے تل ابیب کی کچرہ گاہوں کا رخ کیا اور وہاں سے مختلف رنگوں کی ٹائلیں، سرامکس، آرائشی پتھر، عمارتی لکڑیوں کے ٹکڑے ، بوتلیں اور ان اشیا کو چننا شروع کیا جو ان کے کسی کام آسکتے تھے۔
آہستہ آہستہ نسیم کاہلوں نے ان اشیا کو فنکاری سے استعمال کر کے اپنی غار کو آرٹ کا ایک منفرد اور دلکش نمونہ بنا دیا۔
کاہلوں کے گھر کی پہلی منزل کے تقریباً ہر کمرے کا فرش مختلف نمونوں کی رنگ برنگی ٹائلوں اور دیواریں شیشے کی بوتلوں کو خوبصورت انداز میں ترتیب دیے گئے نمونوں سے سجائی گئی ہیں ۔
کاہلوں کا کہنا ہے کہ ان کا یہ گھر بہت مضبوط اور بہت خوبصورت ہے۔ وہ اپنے گھر کو ایک گھر نہیں بلکہ عجوبہ گھر یا عجائب گھر کہتے ہیں، جسے بہت سے مقامی لوگ دیکھنے کے لیے آتے ہیں اور کاہلوں خوشی خوشی انہیں اپنی محنت سے تیار کردہ منفرد آرٹ کے نمونے کو دکھاتے ہیں ۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کے ایک سوال پر کاہلو ں نے بتایا کہ ان کے پاس یہ زیر زمین گھر بنانے کا اجازت نامہ تو نہیں ہے۔لیکن یہ بات بھی مدنظر رکھی جانی چاہیے کہ بجلی کے ادارے نے انہیں برسوں پہلے بجلی کی لائن فراہم کر دی تھی۔
کاہلوں کا غار تل ابیب سے 13 کلومیٹر کے فاصلے پر ہرزلیہ کے مضافات میں ہے۔ یہاں 800 سال پرانا وہ قلعہ بھی ہے جہاں صلاح الدین ایو بی کی رچرڈ دی لائن ہارٹ سے جنگ ہوئی تھی۔ یہاں اسرائیل کا وہ اسلحہ ڈپو بھی موجود ہے جسے 30 سال قبل متروک کر دیا گیا تھا۔
ماحولیاتی تحفظ کی وزارت کا کہنا ہے کہ کاہلوں نے پچھلے 50 برسوں میں "چٹان کو نمایاں نقصان پہنچایا ہے ، جس سے عوام کے لیے خطرہ بڑھ گیا ہے اور ساحل پر عوام کے گزرنے کی جگہ کو کم کر دیا ہے ۔
وزارت کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہرزلیہ میونسپلٹی اور دیگر حکام برسوں گزر جانے کے باوجود اس مسئلے کے حل میں ناکام رہے ہیں جس کے بعد وزارت کو بے دخلی کا نوٹس جاری کرنا پڑا۔
وزارت کا مزید کہنا ہے کہ ہرزلیہ میونسپلٹی نے کاہلوں کے لیے متبادل رہائش گاہ تلاش کر لی ہے۔
جب کہ کاہلوں اپنی عمر بھر کی محنت کے ثمر کو کسی صورت چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں ۔ ان کا موقف ہے کہ انہوں نے نصف صدی میں ایک چٹان کو آرٹ کا ایک نادر نمونہ بنا دیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی محنت اور فن کو سراہتے ہوئے ان کے گھر کو ایک عجائب گھر قرار دیاجانا چاہئے اور انہیں اپنی باقی زندگی اس گھر میں گزارنے کی اجازت دی جانی چاہیے ۔
کاہلوں کے دوستوں اور خاندان والوں نے غار میں بنی رہائش گاہ کے قانونی دفاع کے لیے فنڈ اکٹھے کرنے شروع کر دیے ہہیں۔ جبکہ کاہلوں کہتے ہیں کہ وہ جیتے جی کسی صورت نصف صدی کی محنت سے تعمیرکردہ اپنے منفرد گھر کو نہیں چھوڑیں گے۔
انہوں نے کہاہے کہ ،"میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ میں یہاں دفن ہونے کے لیے تیار ہوں ۔"
آپ کیا کہتے ہیں نسیم کوہلوں کے اس منفرد مکان کو ان کی ملکیت میں رکھنے کے لئے کیا کرنا چاہئے ؟ کمنٹ بکس میں ضرور لکھئے گا۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے)