ترکی کی فوج کی شمالی شام میں ایک ہفتے کی جاری دراندازی کے بعد، ملک اور بیرون مبصرین اِس بات پر فکرمند ہیں آیا یہ کب رُکے گی۔ تاہم، ’یوفریٹس شیلڈ‘ نامی اِس کارروائی کا بیان کردہ مقصد یہ ہے کہ ترک سرحد سے ’’شدت پسندوں‘‘ کو کس طرح ہٹایا جائے۔۔جو ایک غیر واضح مقصد لگتا ہے جب کہ ترکی کے طویل مدتی ارادوں کے بارے میں چمہ گوئیاں شروع ہوگئی ہیں۔
ترک افواج جو شام کے اندر ’فری سیریئن آرمی‘ کی پشت پناہی کر رہی ہیں، داعش اور امریکہ کی حمایت یافتہ ’سیریئن کُرد ملیشیا‘ (وائی پی جی) کے خلاف کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ کارروائی کب ختم ہوگی، ترکی نے اِس بارے میں کوئی عندیہ نہیں دیا۔
ابراہیم کاکن صدر رجب طیب اردوان کے ترجمان ہیں۔ اُنھوں نے بدھ کے روز کہا کہ ’’اس کارروائی کا مقصد داعش کے علاوہ تمام دہشت گرد تنظیموں سے، جن میں ’وائی پی جی‘ شامل ہے، نبردآزما ہونا، اور ہماری سرحدوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنا شامل ہے، تاکہ ہمارری سرحد کی سلامتی کو یقینی بنایا جاسکے‘‘۔
ترک وزیر خارجہ مولودچاوش اوگلو نے کہا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد یہ بھی ہے کہ ’وائی پی جی‘ کو مزید علاقے پر قبضہ کرنے سے روکا جائے، جس کے لیے کوبانی اور آرفین کی کُرد چھاونیوں کو منسلک کرنا شامل ہے جس سے ’وائی پی جی‘ کے زیر اثر ایسا علاقہ قائم کرنا ہے جو ترکی کی سرحد کے ساتھ ساتھ چلتا ہو۔
ترکی ’وائی پی جی‘ کو ممنوعہ ’پی کے کے‘ کا ایک کل پرزہ خیال کرتا ہے، جو ترک حکومت سے لڑ رہی ہے۔
امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے اِس ہفتے ترکی پر زور دیا کہ وہ داعش نا کہ کُرد افواج پر پر دھیان ’’مرتکز رکھیں‘‘۔