لاہور کی نشتر کالونی کے قریب واقع مناہاں نام کی مسیحیوں کی ایک بستی کے گرجا گھر کے پادری کو قرآن کے اوراق کی توہین کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔
بابو شہباز نامی اس پادری کی گرجا گھر میں اپنی ایک دکان بھی ہے اور ساتھ ہی وہ اس بستی میں عبادات کا بھی اہتمام کرتا ہے۔ اس گرجا گھر کے قریب قرآن کے کچھ اوراق مقامی مسلمانوں کو ملے جن پر مبینہ طور پر بابو شہباز کا نام لکھا ہوا تھا۔ اسے بنیاد بناکر بابو کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ مقامی تھانے میں درج کرلیا گیا ہے اور بابو شہباز زیر حراست ہے۔
ندیم انتھونی ایک مسیحی وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان ہومین رائٹس کمشن کے ایک عہدیدار بھی ہیں۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں بتایا کہ وہ اس واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد اس علاقے میں گئے تو پتہ چلا کہ توہین مذہب کی جو رپورٹ درج ہوئی ہے اس میں تحریر ہے کہ گرجا گھر کے قریب سے قرآ ن کے اوراق ملے ہیں جن پر نیلی سیاہی سے پادری بابو شہباز کا نام لکھا ہوا تھا۔
ندیم انتھونی کا کہنا تھا کہ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر کسی شخص کی نیت قرآنی اوراق کی بے حرمتی کرنے کی ہو اور اسے پتہ بھی ہو کہ اس جرم کی سزا پاکستان میں موت ہوسکتی ہے اور وہ خود بے حرمتی والے اوراق پر اپنا نام لکھ دے۔
پاکستان میں توہین مذہب کا قانون سخت سزاؤں والا قانون ہے یہی وجہ ہے کہ حکومت کی پولیس کو ہدایات ہیں کہ توہین مذہب کا مقدمہ درج کرنے سے پہلے اچھی طرح معاملے کی تفتیش کرے۔
بابو شہباز پر پرچہ درج کرنے سے پہلے کوئی مناسب تفتیش کیوں نہ ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں ندیم انتھونی نے بتایا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ تھانے کے باہر جمع ہوجاتے ہیں اور ان کے مذہبی جذبات بھی بھڑک رہے ہوتے ہیں لہذا تھانے کا عملہ دباؤ میں آجاتا ہے اور پرچہ درج کرلیتا ہے۔
ماضی میں ایسا ہوا ہے کہ پرچہ درج ہونے کے بعد بھی اگر تفتیش میں کچھ ثابت نہ ہو تو حکام کوئی راستہ نکال لیتے ہیں۔ بابو شہباز کے کیس پر بات کرتے ہوئے ندیم انتھونی نے کہا کہ اس بستی میں آباد اکثر مسلمان بابو شہباز کو مجرم نہیں سمجھتے لہذا غالب امکان ہے کہ اس معاملے میں بھی کوئی رستہ نکل آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں بابو شہباز کے ساتھ دشمنی نکالنے کا پہلو بھی سامنے آیا ہے اور اس ضمن میں مقامی آبادی کے ساتھ اجلاس بھی ہوا ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ باور کیا جاتا ہے ۔ حقوق انسانی کی تنظیمیں قانون سازوں پر مسلسل زور دیتی رہی ہیں کہ وہ اس نظر سے توہین مذہب کے قانون کا جائزہ لیں کہ اس کے تحت اکثر لوگ یا تو اپنی دشمنیاں نکالتے ہیں یا اپنے مخالف کی جائیداد پر قبضہ کرلیتے ہیں۔