افریقہ میں یورپی ملکوں کی حکمرانی سے کئی سماجی اور اقتصادی تبدیلیاں آئیں جن کی وجہ سے ایڈز کے وائرس کے پھیلاؤ میں آسانی ہوئی ۔
ایچ آئی وی ایڈز کی وبا کے بارے میں ایک نئی کتاب شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس کی ابتدا اور اس کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ یورپی ملکوں کا نوآبادیاتی نظام ہے ۔ اس کتاب کا عنوان ہے Tinderbox: How the West Sparked the AIDS Epidemic and How the World Can Finally Overcome It.۔ اس کتاب کے مطابق، افریقہ میں یورپی ملکوں کی حکمرانی سے کئی سماجی اور اقتصادی تبدیلیاں آئیں جن کی وجہ سے ایڈز کے وائرس کے پھیلاؤ میں آسانی ہوئی ۔
آباد کاروں کے لیے، افریقہ کے جنگلات ، ہاتھی دانت، ربڑ اور معدنیات جیسی بیش قیمت اشیاء سے مالا مال تھے ۔ لیکن دولت کی تلاش میں قسمت آزمائی کرنے والوں کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ان جنگلات میں ایک ہولناک وائرس بھی موجود ہے ، ایسا وائرس جس نے ساری دنیا میں ایچ آئی وی کی وبا پھیلنے کے بعد سے اب تک، 3 کروڑ سے زیادہ انسانی جانوں کو نگل لیا ہے ۔ کتاب ٹنڈر بکس کے مصنفین کریگ ٹمبرگ اور ڈاکٹر ڈینیئل ہالپرن کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں ایچ آئی وی کے وائرس کی ابتدا پر جو ریسرچ ہوئی ہے، اس سے پتہ چلا ہے کہ یہ وائرس جنوب مشرقی کیمرون کے جنگلو ں سے آیا ہے ۔
ٹمبرگ جوہانسبرگ میں اخبار واشنگٹن پوسٹ کے سابق بیورو چیف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سائنسدانوں نے ایچ آئ وی کی مہلک ترین شکل کا موازنہ simian immune-deficiency virus سے کیا جو مقامی چمپینزیز میں پایا جاتا ہے۔ انھو ں نے اس ریسرچ کے بارے میں فلاڈیلفیا کے فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں تقریر کرتے ہوئے بتایا۔
’’انھوں نے جنوبی کیمرون میں ان افریقی بن مانسوں کے رہنے کے مقامات کے آس پاس سے ان کا فضلہ اکٹھا کیا ۔ ان کےفضلے میں اس وائرس کے اجزا پائے گئے ۔ اس وائرسوں کا موازنہ انھوں نے ایچ آئی وی، یعنی human immune deficiency virus سے کیا۔انہیں پتہ چلا کہ چمپینزی کے فضلے میں پایا جانے والا وائرس اور ایچ آئی وی، بالکل ایک جیسے ہیں۔ کیمرون کا یہ وہ حصہ ہے جہاں آج کل بھی آبادی بہت کم ہے کیوں کہ یہاں جنگل بہت زیادہ گھنے ہیں۔ ان علاقوں میں جو دریا ہیں ان میں کشتی چلانا بھی آسان نہیں ہے۔ لہٰذا قدیم زمانے سے ہی، یہاں انسان اور چمپینزی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تھے ۔‘‘
لیکن ریلوے، سڑکوں اور دخانی کشتیوں کی آمد کے ساتھ یہ سب بدل گیا۔ اب افریقہ کے سب سے بڑے دریا، کانگو اور اس کے معاون دریاؤں کےآس پاس تجارتی مراکز سے اشیاء بارشی جنگلات تک پہنچنے لگیں۔
افریقی مرد اور عورتیں اب مزدور بن گئے۔ وہ جنگلوں سے سامان لاتے لے جاتے تا کہ آبادکاروں کے لگائے ہوئے ٹیکس ادا کر سکیں۔ کچھ لوگ قلیوں کی طرح کام کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ مقامی بستیوں میں گوشت کے لیے چمپینزی مارے جانے لگے ۔ سائنسداں کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس انسانوں تک اس طرح پہنچا ہو کہ کسی شکاری نے وائرس والے جانور کو چھوا ہو اور اس عمل کے دوران اس کا اپنا جسم کہیں سے کٹ گیا ہو ۔ آمد و رفت کے نئے راستوں کی بدولت ، شکاری اور وائرس اب ایک چھوٹے سے غیر آباد علاقے تک محدود نہیں تھے، جہاں وہ دونوں بالآخر ہلاک ہو جاتے ۔
ٹمبرگ کہتے ہیں’’ قلیوں کے جانے کا ایک پرانا راستہ ہے جہاں اب ایک کچی سڑک ہے ۔ یہ سٹرک اس مقام سے ایک میل کے اندر ہے جہاں سے سائنسدانوں نے چمپینزی کا فضلہ اکٹھا کیا تھا ۔ اس فضلے میں جو وائرس تھا وہ ہو بہو وہی وائرس تھا جس سے ایڈز کی وبا سے مرنے والا ہر شخص ہلاک ہوا ہے ۔‘‘
شہری آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ، گھنی آبادی والے لیوپولڈ ویلے میں جسے اب کنشاسا کہتے ہیں ، جنسی افعال کے نتیجے میں پھیلنے والی بیماریاں ، یا STDs تیزی سے پھیل گئیں۔
ٹمبرگ بتاتے ہیں’’ تاریخی ریکارڈ بالکل واضح ہے ۔ جنسی امراض میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ یورپیوں کے افریقہ پہنچنے سے پہلے تک یہ بیماریاں کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھیں۔ اچانک اب یہ وبا کی شکل اختیار کر گئیں۔ بیلجیم کے آباد کاروں کو شرح پیدائش کم ہونے سے پریشانی ہوئی کیوں کہ آباد کاری کے اقتصادی نظام کے لیے اونچی شرح پیدائش ضروری تھی ۔ انھوں نے سوچا کہ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک سے زیادہ شادی نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن اس کی وجہ جنسی بیماریاں تھیں۔ عورتیں بیمار تھیں ۔ اب ہم یہ بات جانتے ہیں کہ دنیا کے اس حصے میں کئی عشروں سے جنسی بیماریوں میں ایچ آئی وی کا وائرس نیچی سطح پر ، لیکن مسلسل پھیل رہا تھا۔‘‘
ٹمبرگ کہتے ہیں کہ ریل گاڑیوں، بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کے دور میں، اس وائرس کا ساری دنیا میں پھیل جانا لازمی تھا۔ایچ آئی وی /ایڈز کی وبا کے خلاف جنگ کی کوششوں کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس با ت کو سمجھیں کہ اس وائرس کی ابتدا کیسے ہوئی اور وہ ماحول کیا تھا جس میں اس کی افزائش ہوئی۔
وہ کہتے ہیں کہ افریقہ میں اس وبا سے نمٹنے کے جو حل بڑی حد تک مغربی ملکوں نے تیار کیے ہیں، ان میں نو آبادیاتی نظام کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ برِ اعظم افریقہ میں ایچ آئی وی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ہمیں صرف کثیر رقم خرچ کرنے اور جدید ترین بائیومیڈیکل تحقیق پر انحصار نہیں کرنا چاہیئے ۔ اس کام میں ہمیں ثقافتی عناصر اور لوگوں کے رویوں کو سمجھنے کی کوشش بھی کرنی چاہیئے ۔
آباد کاروں کے لیے، افریقہ کے جنگلات ، ہاتھی دانت، ربڑ اور معدنیات جیسی بیش قیمت اشیاء سے مالا مال تھے ۔ لیکن دولت کی تلاش میں قسمت آزمائی کرنے والوں کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ان جنگلات میں ایک ہولناک وائرس بھی موجود ہے ، ایسا وائرس جس نے ساری دنیا میں ایچ آئی وی کی وبا پھیلنے کے بعد سے اب تک، 3 کروڑ سے زیادہ انسانی جانوں کو نگل لیا ہے ۔ کتاب ٹنڈر بکس کے مصنفین کریگ ٹمبرگ اور ڈاکٹر ڈینیئل ہالپرن کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں ایچ آئی وی کے وائرس کی ابتدا پر جو ریسرچ ہوئی ہے، اس سے پتہ چلا ہے کہ یہ وائرس جنوب مشرقی کیمرون کے جنگلو ں سے آیا ہے ۔
ٹمبرگ جوہانسبرگ میں اخبار واشنگٹن پوسٹ کے سابق بیورو چیف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سائنسدانوں نے ایچ آئ وی کی مہلک ترین شکل کا موازنہ simian immune-deficiency virus سے کیا جو مقامی چمپینزیز میں پایا جاتا ہے۔ انھو ں نے اس ریسرچ کے بارے میں فلاڈیلفیا کے فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں تقریر کرتے ہوئے بتایا۔
’’انھوں نے جنوبی کیمرون میں ان افریقی بن مانسوں کے رہنے کے مقامات کے آس پاس سے ان کا فضلہ اکٹھا کیا ۔ ان کےفضلے میں اس وائرس کے اجزا پائے گئے ۔ اس وائرسوں کا موازنہ انھوں نے ایچ آئی وی، یعنی human immune deficiency virus سے کیا۔انہیں پتہ چلا کہ چمپینزی کے فضلے میں پایا جانے والا وائرس اور ایچ آئی وی، بالکل ایک جیسے ہیں۔ کیمرون کا یہ وہ حصہ ہے جہاں آج کل بھی آبادی بہت کم ہے کیوں کہ یہاں جنگل بہت زیادہ گھنے ہیں۔ ان علاقوں میں جو دریا ہیں ان میں کشتی چلانا بھی آسان نہیں ہے۔ لہٰذا قدیم زمانے سے ہی، یہاں انسان اور چمپینزی ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تھے ۔‘‘
لیکن ریلوے، سڑکوں اور دخانی کشتیوں کی آمد کے ساتھ یہ سب بدل گیا۔ اب افریقہ کے سب سے بڑے دریا، کانگو اور اس کے معاون دریاؤں کےآس پاس تجارتی مراکز سے اشیاء بارشی جنگلات تک پہنچنے لگیں۔
افریقی مرد اور عورتیں اب مزدور بن گئے۔ وہ جنگلوں سے سامان لاتے لے جاتے تا کہ آبادکاروں کے لگائے ہوئے ٹیکس ادا کر سکیں۔ کچھ لوگ قلیوں کی طرح کام کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ مقامی بستیوں میں گوشت کے لیے چمپینزی مارے جانے لگے ۔ سائنسداں کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس انسانوں تک اس طرح پہنچا ہو کہ کسی شکاری نے وائرس والے جانور کو چھوا ہو اور اس عمل کے دوران اس کا اپنا جسم کہیں سے کٹ گیا ہو ۔ آمد و رفت کے نئے راستوں کی بدولت ، شکاری اور وائرس اب ایک چھوٹے سے غیر آباد علاقے تک محدود نہیں تھے، جہاں وہ دونوں بالآخر ہلاک ہو جاتے ۔
ٹمبرگ کہتے ہیں’’ قلیوں کے جانے کا ایک پرانا راستہ ہے جہاں اب ایک کچی سڑک ہے ۔ یہ سٹرک اس مقام سے ایک میل کے اندر ہے جہاں سے سائنسدانوں نے چمپینزی کا فضلہ اکٹھا کیا تھا ۔ اس فضلے میں جو وائرس تھا وہ ہو بہو وہی وائرس تھا جس سے ایڈز کی وبا سے مرنے والا ہر شخص ہلاک ہوا ہے ۔‘‘
شہری آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ، گھنی آبادی والے لیوپولڈ ویلے میں جسے اب کنشاسا کہتے ہیں ، جنسی افعال کے نتیجے میں پھیلنے والی بیماریاں ، یا STDs تیزی سے پھیل گئیں۔
ٹمبرگ بتاتے ہیں’’ تاریخی ریکارڈ بالکل واضح ہے ۔ جنسی امراض میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ یورپیوں کے افریقہ پہنچنے سے پہلے تک یہ بیماریاں کوئی بڑا مسئلہ نہیں تھیں۔ اچانک اب یہ وبا کی شکل اختیار کر گئیں۔ بیلجیم کے آباد کاروں کو شرح پیدائش کم ہونے سے پریشانی ہوئی کیوں کہ آباد کاری کے اقتصادی نظام کے لیے اونچی شرح پیدائش ضروری تھی ۔ انھوں نے سوچا کہ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک سے زیادہ شادی نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن اس کی وجہ جنسی بیماریاں تھیں۔ عورتیں بیمار تھیں ۔ اب ہم یہ بات جانتے ہیں کہ دنیا کے اس حصے میں کئی عشروں سے جنسی بیماریوں میں ایچ آئی وی کا وائرس نیچی سطح پر ، لیکن مسلسل پھیل رہا تھا۔‘‘
ٹمبرگ کہتے ہیں کہ ریل گاڑیوں، بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کے دور میں، اس وائرس کا ساری دنیا میں پھیل جانا لازمی تھا۔ایچ آئی وی /ایڈز کی وبا کے خلاف جنگ کی کوششوں کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس با ت کو سمجھیں کہ اس وائرس کی ابتدا کیسے ہوئی اور وہ ماحول کیا تھا جس میں اس کی افزائش ہوئی۔
وہ کہتے ہیں کہ افریقہ میں اس وبا سے نمٹنے کے جو حل بڑی حد تک مغربی ملکوں نے تیار کیے ہیں، ان میں نو آبادیاتی نظام کے اثرات آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ برِ اعظم افریقہ میں ایچ آئی وی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ہمیں صرف کثیر رقم خرچ کرنے اور جدید ترین بائیومیڈیکل تحقیق پر انحصار نہیں کرنا چاہیئے ۔ اس کام میں ہمیں ثقافتی عناصر اور لوگوں کے رویوں کو سمجھنے کی کوشش بھی کرنی چاہیئے ۔