چالیس سال سے زیادہ عرصہ قبل جب ایڈز پہلی بار شناخت ہوئی تھی تو اس وقت وہ گویا ایک سزائے موت تصور کی جاتی تھی۔ اس وقت سے اب تک یہ ایک شديد مگر ایک قابل علاج بیماری بن گئی ہے۔ یکم دسمبر ایڈز کا عالمی دن وہ سالانہ موقع ہے جب لوگوں کو یہ احساس دلانے میں مدد کی جاتی ہے کہ ایڈز ابھی تک ہمارے ساتھ ہے اور پیش رفت کے باوجود یہ وبا ختم نہیں ہوئی ہے۔
ہر سال دنیا بھر میں کمیونٹیز ایڈز کا عالمی دن اس بیماری کے بارے میں آگاہی، ٹیسٹ کرانے اور اس سے بچاؤ کے پیغامات کے ساتھ مناتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے، آسان ترین طریقہ ہمیشہ کنڈوم کا استعمال ہے۔
جب وزرائے صحت نے یکم دسمبر کو ایڈز کا عالمی دن قرار دیا تو انہیں معلوم ہوا کہ دوسری بیماریوں کے بر عکس، ایچ آئی وی وائرس جو ایڈز کا باعث بنتا ہے، عالمی سطح پر پھیل سکتا ہے۔
پال کواٹا جو شروع ہی سے ایڈز کے خلاف ایک سرگرم کارکن رہے ہیں، کہتے ہیں کہ میں شروع کے دنوں میں وہاں تھا۔ میں اس وقت وہاں تھا جب ہم دونوں کو اس کا مقابلہ کرنا تھا اور کام کرنا تھا اور ان بہت سے لوگوں کو سپرد خاک کرنا تھا جنہیں ہم پیار کرتے تھے۔
ڈاکٹر انتھونی فاؤچی ایڈز کے خلاف لڑائی میں ابتدا سے شامل تھے۔ انہوں نے ایچ آئی وی کے علاج کی دوا تیار کرنے کے لیے کام کیا۔ یہ علاج اتنا موثر ہو گیا ہے کہ اگر کسی متاثرہ شخص کو روزانہ ایک گولی دے دی جائے تو یہ ناممکن ہے کہ وہ وائرس کسی دوسرے میں منتقل ہو سکے۔ ایک اور دوا، 'ٹروویڈا' جو ایڈز سے پاک کسی شخص کو اس بیماری سے بچاتی ہے۔ ڈاکٹر فاؤچی کہتے ہیں کہ ایڈز کو ختم کرنا ایک سادہ عمل ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر آپ نے وہ دونوں کام کر لیے یعنی احتیاط اور علاج، اور جنہیں خطرہ لاحق ہے، وہ بچاؤ کی یہ دوا لے لیں، تو اگر آپ نے اس پر پوری طرح سے عمل کر لیا تو آپ اس وبا کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
ان دواؤں کے استعمال سے ایچ آئی وی میں مبتلا ہونے والے افراد کی تعداد میں نمایاں طو ر پر کمی آچکی ہے۔ 2004 سے ایڈز سے منسلک اموات کی تعداد میں 55 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہو چکی ہے۔ لیکن، ایچ آئی وی کی بیماری کے شکار صرف لگ بھگ 60 فیصد لوگ دوا کا استعمال کرتے ہیں۔
پال کواٹا کہتے ہیں کہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ایچ آئی وی ایڈز کے ساتھ بہت سے امتیازی روئے اور بدنامی کے پہلو منسلک ہیں۔
کواٹا این ایم اے سی کے لئے کام کرتے ہیں جو ایڈز سے مقابلے کے لیے صحت مند برابری اور نسلی انصاف کی وکالت کرنے والی ایک تنظیم ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ وائرس ہر اس جگہ پھیلتا ہے جہاں لوگوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلی بات تو یہ کہ یہ وائرس نمایاں طور پر رنگدار لوگوں کو متاثر کرتا ہے، دوسری بات یہ کہ یہ نمایاں طور پر ہم جنس پرست مردوں کو متاثر کرتا ہے۔ تیسرا یہ کہ یہ نمایاں طور پر غریب لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔
امریکہ میں ایڈز کے شکار افراد کی اکثریت غریب ہے۔ امریکہ سے باہر، ایچ آئی وی ایڈز کے شکار لوگوں کی اکثریت کم اور درمیانی آمدنی والے ملکوں میں رہتی ہے۔ ہر جگہ ٹین ایجرز خطرے میں رہتے ہیں۔ انہیں ٹیسٹنگ، ہیلتھ کئیر اور کونسلنگ تک بہت کم رسائی ہوتی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ فاؤچی کہتے ہیں کہ ہمیں دواؤں کے علاوہ کچھ اور کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہم کسی ویکسین کے بغیر ایچ آئی وی کو ختم نہیں کر سکتے۔
فاؤچی کہتے ہیں کہ ویکسینز پر کام آگے بڑھ رہا ہے۔ لیکن، اس وقت بہترین طریقہ یہ ہے کہ لوگ اپنے ٹیسٹ کرائیں، تاکہ جن میں یہ وائرس موجود ہو وہ علاج کے لیے جا سکیں، جن لوگوں کو اس بیماری کا خطرہ درپیش ہو انہیں دوا فراہم کی جائے اور ایچ آئی وی ایڈز کا علاج ایک بیماری کے طور پر ہو نہ کہ ایک سیاسی، اخلاقی یا سماجی مسئلے کے طور پر۔