بنگلہ دیش کی وزیر اعظم کے دفتر نے جمعرات کو بتایاہے کہ اقوامِ متحدہ کے لیے کام کرنے والےایک بنگلہ دیشی شہری کو یمن میں داعش نے اغوا کے ڈیڑھ سال بعد رہا کر دیا ہے۔
اکام صوفیول انعم بنگلہ دیش فوج کے سابق لیفٹننٹ کرنل ہیں جو بدھ کو ہمن سے ڈھاکہ پہنچے تھے۔ ایئرپورٹ پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے داعش کی قید کے گزشتہ 18 مہینوں کو 'ہولناک' قرار دیا۔
انعم کہتے ہیں "میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں گھر واپس آؤں گا اور یہی سوچتا تھا کہ دہشت گرد مجھے کسی بھی وقت مار سکتے ہیں۔"
جزیرہ نما عرب میں سرگرم القاعدہ (AQAP) نے فروری 2022 میں انعم اور دیگر چار افراد کو اس وقت اغوا کر لیا تھاجب وہ اقوامِ متحدہ کے "سیفٹی اینڈ سیکیورٹی " کےمحکمے کے لیے کام کے دوران ایک فیلڈ مشن کے بعد یمن کے جنوبی بندرگاہ والے شہر عدن واپس آئے تھے۔
انعم نے بتایاکہ ان پر جسمانی تشدد نہیں کیا گیا لیکن اکثر ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی جاتی تھی اور وہ مہینوں تک آسمان نہیں دیکھ سکتے تھے ۔
انعم نے مزید کہا کہ انہیں بار بار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا۔اور انہیں اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ داعش کو ان کی رہائی کے بدلے کتنا تاوان چاہیے تھا یا ان کا مطالبہ کیا تھا۔
SEE ALSO: نائن الیون کے 20 سال: القاعدہ کا ماضی اور مستقبلان کےبقول، "میرے دن مشکلات میں گزر رہے تھے۔ ہر وقت موت کا خوف سر پر منڈلاتا رہتا تھا۔ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ یہ صرف فلموں میں دیکھا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان کا خیال تھا کہ انہیں اس لیے ہدف بنایا گیا ہےکیوں کہ وہ اقوامِ متحدہ کے اہلکار تھے۔
بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم کے دفتر نے انعم کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے ساتھ ملاقات کی ایک تصویر جاری کرتے ہوئے کہا ہےکہ انعم نے ان کو آزاد کروانے میں وزیراعظم کے کردار ادا کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔
جزیرہ نما عرب میں القاعدہ (اے کیو اےپی) کیسے پروان چڑھی؟
یہ تنازع 2014 میں اس وقت شروع ہوا جب ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے یمن کےدارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا، جس کے بعد سعودی قیادت والے اتحادنے ،بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کی مدد کے لیے اگلے سال مداخلت کی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اے کیو اے پی اور اسلامک اسٹیٹ گروپ کے وفادار عسکریت پسند وں نےافراتفری کے ان حالات سے فائدہ اٹھایا۔ القاعدہ کی یمن اور سعودی شاخوں کے انضمام سے تشکیل دی جانےوالی اے کیو اےپی نے یمن میں باغیوں اور حکومتی اہداف کے ساتھ ساتھ غیر ملکیوں پر حملے کیے۔
یمن کی جنگ میں لاکھوں افراد بالواسطہ یا بلاواسطہ مارے جا چکے ہیں۔ لیکن اکتوبر میں ختم ہونے کے بعد بھی، اپریل 2022 میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی چھ ماہ کی جنگ بندی کے بعد سے جارحیت میں بڑی کمی آئی ہے۔
یہ رپورٹ خبر رساں ایجنسی فرانس پریس کی معلومات پر مبنی ہے۔