جمعے کو یوم القدس کے موقعے پر نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں کئی مقامات پر جلوس نکالے گئے اور مظاہرے کئے گئے۔
فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف اور فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لئے ماہِ رمضان کے آخری جمعے کو عالمی یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یوم القدس منانے کی اپیل پہلی بار اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی نے 1979 میں کی تھی، جب سے دنیا کے کئی حصوں میں اس دن جلسے منعقد کئے جاتے ہیں اور جلوس نکالے جاتے ہیں۔
استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے کشمیری قائدین کے ایک اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' اور کئی دوسری سیاسی اور مذہبی تنظیموں نے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ جمعتہ الوداع کو یوم القدس اور یومِ کشمیر کے طور پر منائیں۔
چنانچہ مساجد اور خانقاہوں میں جمعے کے اجتماعات کے اختتام پر کئی مقامات پر کشمیری مسلمانوں نے جلوس نکالے جن کے دوران فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے حق میں اور اسرائیل اور بھارت کے خلاف نعرے لگائے گئے۔
سرینگر کی تاریخی جامع مسجد کے باہر بھی اس طرح کا ایک مظاہرہ کیا گیا جس کے بعد مظاہرین میں شامل نوجوانوں نے قریبی علاقے نوہٹہ کے مقام پر ایک بڑے چوراہے پر نعرے بازی کی۔
مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں نے فوری طور پر حرکت میں آکر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے ان پر اشک آور گیس چھوڑی۔ مظاہرین نے حفاظتی دستوں پر پتھراؤ کیا۔ طرفین کے درمیان جھڑپیں آخری اطلاع آنے تک جاری تھیں۔
نوہٹہ وہی علاقہ ہے جہاں گزشتہ جمعے کو بھارت کی وفاقی پولیس فورس ’سی آر پی ایف‘ نے ُپرتشدد مظاہرین پر اپنی گاڑی دوڑادی تھی جس کے نتیجے میں ایک 21 سالہ نوجوان ہلاک ہوا تھا اور دو اور نوجوان شدید طور پر زخمی ہوئے تھے۔
جمعہ کو یوم القدس کے موقعے پر جنوبی شہر اننت ناگ میں بھی مظاہرین اور حفاظتی دستوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔
اس دوراں بھارت کے وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں ماہِ رمضان کے دوران مشروط جنگ بندی کے فیصلے میں توسیع کرنے کا فیصلہ زمینی صورتِ حال کا مکمل جائزہ لینے اور ریاست کے مجموعی حالات کا تعین کرنے کے بعد ہی کیا جائے گا۔
راجناتھ سنگھ نےجو شورش زدہ ریاست کے دو روزہ دورے پر تھے سرحدی قصبے کپوارہ میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "رمضان جنگبندی میں توسیع کرنے کا فیصلہ عوامی نمائندوں کے ساتھ باظابطہ صلاح مشورے اور حفاظتی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے بعد ہی کیا جائے گا"۔
انہوں نے مزید کہا کہ ریاست کی حفاظتی صورتِ حال اور دوسرے متعلقہ امور پر اعلیٰ سطح پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے، اور ان کے بقول، ’’ایسا عنقریب کیا جائے گا جس کے بعد اس بارے میں حتمی فیصلہ لیا جائے گا‘‘۔
خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے رمضان کے مہینے کے آغاز سے ایک دن پہلے اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم مسلمان عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشنز کو معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، بعد میں یہ وضاحت کی تھی کہ یہ مشروط عارضی جنگ بندی ہے اور یہ کہ عسکریت پسندوں کی طرف سے فوج یا دوسرے حفاظتی دستوں پر حملہ کرنے کی صورت میں جوابی کارروائی کی جائے گی۔
گزشتہ تین ہفتے کے دروان مشتبہ عسکریت پسندوں نے دستی بموں کے ایک درجن سے زائد حملے کئے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارتی فوج کی گاڑیوں کو تین موقعوں پر بارودی سرنگوں کے دھماکے کرکے نشانہ بنایا گیا۔ ان واقعات میں دو درجن کے قریب لوگ جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی زخمی ہوگئے۔ بھارتی فوج نے متنازعہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی حد بندی لائین کے قریب گیارہ مشتبہ عسکریت پسندوں کو تین الگ الگ جھڑپوں کے دوراں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ تاہم، اس نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ عارضی جنگ بندی کا اطلاق اس طرح کی جھڑپوں پر نہیں ہوتا۔
Your browser doesn’t support HTML5
جمعرات کو سرینگر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، بھارتی وزیرِ داخلہ نے عسکریت پسندوں پر رمضان کے تقدس کو پامال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ"جو لوگ رمضان کے مقدس مہینے میں بھی اپنی حرکتوں سے بار نہیں آتے ہیں کیا ان کی ان سرگرمیوں کو ناپاک نہیں کہا جا سکتا"۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’اشتعال انگیزیوں کے باوجود بھارتی فوج اور مقامی پولیس نے صبر و تحمل سے کام لیا ہے‘‘۔
بھارتی وزیرِ داخلہ نے یہ بھی کہا تھا کہ"میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارے راستے میں کتنی بھی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں ہم ریاست میں دائمی امن قائم کرنے کے اپنے ارادے سے نہیں ہٹیں گے"۔
اس سے پہلے ریاستی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے عسکریت پسندوں کو اپنی سرگرمیوں میں شدت لاکر رمضان جنگبندی کو سبوتاژ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ تاہم، انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ عسکریت پسند اپنی سرگرمیوں کی "بے فائدگی" کا ادراک کرتے ہوئے تشدد کا راستہ ترک کردیں گے۔
بھارتی وزیرِ داخلہ نے کشمیری علحیدگی پسند قیادت پر کشمیری نوجوانوں کو سنگبازی پر اکسانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ خود اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں، لیکن عام بچوں کے ہاتھوں میں پتھر تھما کر انہیں تشدد کے راستہ پر گامزن کرا دیتے ہیں، اور اس طرح، ان کا مستقبل تاریک بنادیتے ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا تھا: "یہ کہاں کا انصاف ہے، یہ کہاں کی انسانیت ہے؟"
انہوں نے مزید کہا کہ "میں ان سے دل کی گہرایوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ جموں و کشمیر کے سبھی بچوں کو اپنے بچے سمجھیں۔ انہیں جو بھی سیاسی کھیل کھیلنا ہے کھیلیں لیکن ان بچوں کے مستقبل کو داؤ پر نہ لگائیں۔ یہ بچے جموں و کشمیر ہی کے نہیں پورے بھارت کے بچے ہیں۔ پورے بھارت کے لوگوں کا کشمیری بچوں کے ساتھ جذباتی رشتہ ہے۔ ان کی قابلیت، اہلیت اور تخیل کی ہر طرف دھوم مچی ہوئی ہے اور ہر بھارتی شہری ان کی پزیرائی کر رہا ہے۔"
اس کے ردِ عمل میں کشمیری آزادی پسند قیادت نے کہا ہے کہ ’’بھارتی وزیرِداخلہ کو پہلے اپنے گریبان میں جھانکا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ بھارتی فورسز ہر روز کتنے کشمیریوں کو ہلاک کردیتے یا ان پر تشدد کرکے انہیں ناکارہ بنادیتے ہیں اور کس طرح کشمیریوں کی املاک کو تباہ کیا جارہا ہے‘‘۔