امریکی ریاست الابامہ، سزائے موت پانے والے ایک مجرم کینتھ یوجین اسمتھ کو اس ہفتے نائیٹروجن گیس کے ذریعے یہ سزا دینے والی ہے بشرطیکہ عدالتیں اسے روک نہ دیں۔
اس طریقہ کار میں ایک گیس ماسک استعمال کیا جائے گا جو نائیٹروجن کے ذریعے اس ہوا کو روک دے گا جس میں سانس لی جا سکتی ہے۔ یعنی اسے آکسیجن سے محروم کر دے گا۔ اگر اس پر عمل ہو سکا تو یہ امریکہ میں اس طریقے سے دی جانے والی پہلی سزائے موت ہو گی۔
الابامہ کے اٹارنی جنرل کے دفتر نے گزشتہ ہفتے وفاقی اپیل عدالت کے ججوں کو بتایا کہ آکسیجن کو ختم کرکے نائیٹروجن کے ذریعے دی گئی موت کی سزا پر عمل در آمد ایک ایسا طریقہ ہے جس میں سزا پانے والے کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
لیکن بعض ڈاکٹر اور اس طریقہ کار کے ناقد کہتے ہیں کہ جب وارڈن اس طریقے پر عمل کرے گا تو اٹھاون سالہ اسمتھ در حقیقت کیا محسوس کرے گا، یہ کسی کو معلوم نہیں ہے۔
SEE ALSO: امریکہ میں نائٹروجن گیس سےسزائے موت بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، اقوم متحدہامریکی کالج برائے کریکشنل فزیشینز کے صدر ڈاکٹر جیفری کیلر نے ایک ای میل میں لکھا کہ سزا پانے والا شخص خود نائیٹروجن گیس سےکیا محسوس کرے گا۔اس کے بارے میں کوئی کچھ نہیں جانتا۔ یہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہ ایک تجرباتی طریقہ کار ہے۔
ڈاکٹر کیلر کہتے ہیں کہ اس طریقہ کار میں سزا پانے والے شخص کو آکسیجن سے محروم کرکے نائیٹروجن دینا اس سے ذرا ہی مختلف ہے جیسے کسی کے سر پر پلاسٹک کا تھیلا پہنا دیا جائے۔
ریاست الابامہ نے وفاقی عدالت میں موقف اختیار کیا ہےکہ نائیٹروجن گیس سیکنڈوں میں اسمتھ کو بےہوش کردے گی اور منٹوں میں اسے ہلاک کردے گی۔
SEE ALSO: ایران: موساد سے تعلق کے الزام میں خاتون سمیت چار افراد کو پھانسیانیس سو بیاسی میں مہلک انجکشن کے ذریعے سزائے موت دینے کے طریقے کے متعارف ہونے کے بعد ، ایک نیا طریقہ اختیار کرنے کی یہ پہلی کوشش ہو گی۔ الابامہ، مسی سپی اور اوکلا ہوما نے اس طریقے سے یعنی نائیٹروجن ہائی پوکسیا کے ذریعے سزائے موت دینے کا اختیار دیا ہے۔
بعض ریاستیں ایسے میں سزائے موت دینے کے نئے طریقے تلاش کر رہی ہیں جبکہ مہلک انجکشن میں استعمال ہونے والی دوائیں ملنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
امریکن ویٹیرنری میڈیکل ایسو سی ایشن نے دو ہزار بیس میں آسان موت دینے کے لئے گائیڈ لائینز میں لکھا کہ نائیٹروجن کے ذریعے سزائے موت زیادہ تر ممالیہ کے لیے یعنی دودھ پلانے والے جانداروں کے لئے قابل قبول طریقہ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کےماہرین کہتے ہیں کہ وہ باور کرتے ہیں کہ سزائے موت کے اس طریقے سے اذیت رسانی پر عاید پابندی کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر جوئیل زیووٹ ان چار لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے شکایت کی ہے جسکے نتیجے میں یہ وارننگ دی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ ماسک کے اندر اگر کوئی مادہ رسنا شروع ہو گیا تو اس سے دو باتیں ہونگی۔ ممکنہ طور پر یہ ارد گرد کے لوگوں کو خطرے میں ڈال دے گا۔ اور اسطرح ہوا ماسک کے اندر چلی جائے گی۔ اور یوں یہ عمل طویل ہو جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ مرے ہی نہیں۔ وہ صرف زخمی ہو۔
اسمتھ ان چند لوگوں میں سے ہے جو موت کی سزا دئیے جانے کی کوششوں سے بچ نکلے ہیں۔ دو ہزار بائیس میں انہیں ریاست نے مہلک انجکشن کے ذریعے سزائے موت دینے کی کوشش کی لیکن قید خانے کے نظام نے اسے دوا داخل کرنے سے پہلے ہی ملتوی کردیا کیونکہ عملے کو دو نسیں جوڑنے میں مشکل ہو رہی تھی
اسمتھ کے وکلاء عدالت سے نائیٹروجن کے ذریعے موت کی سزا پر عمل درآمد روکنے کی استدعا کر رہے ہیں۔ ان کی دلیل ہے کہ دوسری بار سزائے موت پر عمل درآمد کی کوشش ریاست کے لئے غیر آئینی ہے۔
اس رپورٹ کے لئے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔