الجزائر میں عرب لیگ کے 31ویں سر براہی اجلاس کے دوسرے اور آخری دن عرب رہنماؤں نے ان دیرینہ مسائل پر اتفاق رائے کی کوشش کی جنہوں نے رکن ملکوں کو منقسم کر رکھا ہے ۔
الجزائر کے فوجی بینڈ نے بدھ کے روزملک کا قومی ترانہ بجایا جب کہ دورہ کرنے والے عرب سربراہان مملکت نے میزبان ملک کو اس انقلاب کی سالگرہ پر خراج تحسین پیش کیا۔ الجزائر نے 60 سال قبل فرانس سے آزادی حاصل کی تھی۔
صدرعبدالمجید تبون نے سر براہی اجلاس کی صدارت کی ۔
عرب لیگ کے سربراہ احمد ابولغیث نے زیر بحث متعدد مسائل کو اجاگر کیا جن میں دنیا کو متاثر کرنے والی حالیہ سرد جنگ کی فضا اور عرب ریاستوں کو در پیش ایک اور جاری خوراک کا بحران شامل تھا۔
مصری صدر عبدل فتاح السیسی نے کہا کہ عرب دنیا کے کسی ایک حصے میں عدم استحکام دوسرے علاقوں کی عرب ریاستوں کو متاثر کرتا ہے اور یہ کہ خلیج کی سیکیورٹی ہم سب کو متاثر کرتی ہے ۔
لیبیا کی صدارتی کونسل کے سر براہ خالد المشری نے عرب رہنماؤں کو بتایا کہ ان کا ملک اس انقلاب کے دس سال کے بعد بھی جس نے سابق لیڈر معمر قذافی کا تختہ الٹا ابھی تک سیکیورٹی اور سلامتی کے لیے کوشاں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا کے لوگ ابھی تک اپنے ملک کو آزادی ، جمہوریت اور قانون کی بنیادوں پر از سر نو تعمیر کرنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اس مقصد کو بدستور مقامی طور پر علاقائی طور پر اور بین الاقوامی طور پر خطرات لاحق ہیں۔
SEE ALSO: لیبیا،غزہ ، یمن ہر جگہ عرب شہری عرب لیگ سے ناامید کیوں؟فلسطینی لیڈر محمود عباس نے بدھ کے روز کانفرنس سے خطاب کیا اور اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی پالیسیوں نے فلسطینیوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا کہ وہ ان تمام معاہدوں پر نظر ثانی کرے جو انہوں نے اس کے ساتھ کیے ہیں ۔
بحرین ، مراکش ، سوڈان اور متحدہ عرب امارات حالیہ برسوں میں اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لے آئے ہیں ، جو ایک ایسا اقدام ہے جس کی الجزائر اور کچھ دوسرے عرب ملکوں نے سخت مخالفت کی ہے ۔
سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ان کا ملک شام کی سیکیورٹی اور استحکام کی حمایت کرتا ہے ۔ شام کی حکومت کو اس سال کے سربراہی اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
عراق کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ان کا ملک پڑوسی ملکوں کی جانب سے فوجی مداخلت پر بین الاقوامی اور عرب برادری کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے تاکہ وہ اس کا خاتمہ کر سکیں ۔
عرب لیگ کے ایک بیورو کریٹ ابراہیم دکھیری نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ سر براہی کانفرنس میں اور عرب سفارت کاروں کے درمیان متعدد بڑے مسائل پر کام ہورہا ہے جن میں خوراک اور زراعت کی سیکیورٹی اور عرب ملکوں کے درمیان تجارت کا فروغ شامل ہے ۔
انہوں نے کہا کہ لیگ نے متعدد فیصلے کیے ہیں ، خاص طور پر خوراک کی سیکیورٹی اور عرب ملکوں کے درمیان زرعی شعبے میں تعاون اور ان کے درمیان تجارت کے فروغ کے حوالے سے ۔
اس سال کا سر براہی اجلاس متعدد بڑے عرب رہنماؤں کے بغیر منعقد ہوا جن میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، اردن کے شاہ عبداللہ اور مراکش کے شاہ محمد شامل ہیں ۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ ان رہنماؤں کی غیر موجودگی سر براہی اعلامیوں کے اثر کو کم کرتی ہے ۔