پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف مضبوط فیصلے کا وقت آ پہنچا ہے۔
اسلام آباد میں بدھ کو ہونے والے اجلاس میں وزیراعظم نے کہا کہ اس وقت ملک کو غیر معمولی صورت حال کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی فیصلوں کی ضرورت ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ کمزور اور ’لولے لنگڑے‘ فیصلوں کا وقت نہیں اور اگر ایسا کیا گیا تو قوم مطمئن نہیں ہو گی۔
’’میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سلسلے میں اگر ہم نے کمزور فیصلے کیے یا کمزور اقدامات اٹھائے تو قوم اس سے مطمئن نہیں ہو گی، لولے لنگڑے فیصلوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، فیصلے ہمیں سخت کرنے ہیں جو پاکستان کو خدانخواستہ جڑ سے اکھاڑ کے باہر پھینکنا چاہتے ہیں ان کے خلاف جو اس وقت ان نونہالوں کو مار رہے ہیں۔‘‘
اس اہم اجلاس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ کے ڈائریکٹر جنرل رضوان اختر نے بھی شرکت کی۔
فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ یہ جرات مندانہ فیصلے کرنے اور اُن پر موثر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا وقت ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہمارا عہد ہے کہ آئندہ نسلوں کے لیے دہشت گردی کی لعنت کو ہمیشہ کے لیے ختم کیا جائے۔ جنرل راحیل نے کہا ہے مل کر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ایک ایسے وقت جب ملک کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ’ضرب عضب‘ جاری ہے ملک کے دیگر علاقوں میں بھی چھپے شدت پسندوں کے خلاف بھرپور کارروائی ہونی چاہیئے۔
’’دوسرا ’ضرب عضب‘ ایسے عناصر کے خلاف ملک کے اندر بھی ہونا چاہیئے جو پاکستان کو یہاں اندر بیٹھ کر غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ نہیں کہ ادھر ضرب عضب چل رہی ہے اور یہاں والوں کے لیے ہم اپنی آنکھیں بند کر لیں اگر وہ اسی طرح کے سوچ و فکر کے لوگ ہیں جو اس طرف ہیں، تو میرے خیال ہے کہ کارروائی یہاں بھی ہونی چاہیئے اور اس کے لیے ہم سب کو اکٹھا ہونا چاہیئے اور دنیا بھی آپ سے توقع کر رہی ہے یہ قوم بھی آپ سے یہی توقع کر رہی ہے۔‘‘
اس اجلاس میں دہشت گردوں کے خلاف قومی لائحہ عمل پر تفصیلی غور کیا گیا۔
16 دسمبر کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے میں 133 بچوں سمیت 149 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس کے بعد ملک کی سیاسی و عسکری قیادت نے دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
گزشتہ بدھ کو پشاور میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے موثر لائحہ عمل ایک ہفتے میں طے کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اجلاس کو بتایا کہ ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پانچ ہزار اہلکاروں پر مشتمل ایک سریع الحرکت فورس تشکیل دی جائے گی جس کی تربیت پاکستانی فوج کرے گی۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ میڈیا کو شدت پسندوں کی دھمکیاں اور بیانات نشر نا کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے طور پر ہی دہشت گردوں کو ’بلیک لسٹ‘ کرنا چاہیئے۔