الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابی نشانات کیا الاٹ کیے، سیاسی جماعتوں کے مابین نئے جھگڑے کھڑے ہوگئے۔ تیر و تلوار نے سننے والوں کو کنفیوز کیا، پتنگ کا نشان دو گروپوں کو پھر سے مخالف بنا گیا، بلے کا نشان نہ ملنے پر گلالئی روٹھ گئیں اور عدالت جانے کا اعلان کردیا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ترجمان الطاف احمد کا کہنا ہے "ابھی صرف انتخابی نشانات کے حوالے سے تنازعات کا فیصلہ ہوا ہے۔ نشانات کی فہرست آئندہ کچھ روز میں جاری ہو گی۔"
الیکشن کمیشن نے 2013ء میں ہونے والے گزشتہ انتخابات میں 148 جماعتوں کو انتخابی نشانات تقسیم کیے تھے جبکہ اس کے پاس اس وقت 193 نشانات تھے۔
'ای سی پی' کی ویب سائٹ کے مطابق اس بار علامات 330 رکھی گئی ہیں جب کہ انتخابات میں شرکت کی اہل جماعتیں 117 ہیں۔ ان میں سے بھی 71 جماعتوں کے انتخابی نشانات میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو ای سی پی کے پاس اب بھی بڑی تعداد میں نئے نشانات موجود ہیں جن میں سے بیشتر آزاد امیدواروں کے حصے میں آئیں گے۔
’تیر‘ اور ’تلوار‘
اس بار پاکستان پیپلز پارٹی کو ’تلوار‘ کا نشان الاٹ کیا گیا ہے جب کہ پچھلے انتخابات تک اس کا انتخابی نشان تیر تھا۔ لیکن اس بار تیر کا نشان، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کو دیا گیا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں آپس میں اتحادی ہیں۔ پی پی پی پی کے سربراہ سابق صدر آصف علی زرداری ہیں جبکہ دوسری جماعت کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری۔
سن 1970ء اور 1977ء میں ہونے والے انتخابات میں پی پی پی نے ’تلوار‘ کے نشان پر ہی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم سابق صدر جنرل ضیاالحق نے 77ء کے بعد اس نشان کو فہرست سے ہی نکلوا دیا تھا۔ تب سے 2013ء کے عام انتخابات تک پی پی پی 'تیر' کے نشان پر انتخابات لڑتی آئی ہے۔
عام آدمی خاص کر سندھ کے ناخواندہ ووٹر پر اس کا کیا فرق پڑے گا اور وہ کس حد تک کنفیوز ہوگا یا نہیں ہوگا، یہ آنے والا وقت بتائے گا لیکن پی پی کے میڈیا سیل کے ایک ذمہ دار نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ "جس طرح دونوں شخصیات کے درمیان باپ بیٹے کا رشتہ ہے اسی طرح تیر اور تلوار میں بھی دیرینہ تعلق ہے۔"
پی پی پی نے تقریباً 40 سال بعد ایک مرتبہ پھر انتخابی نشان تلوار کے لیے درخواست دی تھی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (ورکرز) بھی اسی نشان کی خواہش مند تھی مگر ای سی پی نے ان کی یہ درخواست مسترد کردی۔
پی پی پی ورکرز کے رہنماؤں ناہید خان اور ان کے شوہر صفدر عباسی نے اس فیصلے پر اپنا ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ انتخابی نشان صرف ہمیں روکنے کے لیے الاٹ کیا گیا ہے۔ یہ ایک غیر آئینی فیصلہ ہے اور ہم اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ اصل پی پی پی کے دیرینہ کارکن ان کی جماعت کے ساتھ ہیں۔ اس لیے تلوار کے وارث بھی ہم ہیں۔
ادھر پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ بھٹو کے اصل وارث وہ ہے۔ پی پی پی اس نشان پر پہلے بھی انتخابات لڑ چکی ہے اور اس بلیے اب بھی یہ نشان اسے ہی ملنا چاہیے۔
متحدہ کی ’پتنگ‘.... دو گروپوں میں تنازع
ایم کیوایم کو اس بار بھی پتنگ کا نشان دیا گیا ہے لیکن کون سی ایم کیوایم کو۔۔ اس مسئلے پر ایم کیو ایم کے دونوں دھڑے ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے سے اختلاف کر بیٹھے ہیں۔
ایم کیو ایم پی آئی بی کے فاروق ستار کہتے ہیں کہ نشان ان کی درخواست پر ملا ہے۔ بہادر آباد کے رہنما عامر خان کہتے ہیں درخواست انہوں نے دی تھی اوران کا گروپ ہی ’پتنگ‘ پر الیکشن لڑے گا۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے اس حوالے سے ایک ٹوئٹ بھی کی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ پارٹی کے کنوینر کا معاملہ تاحال عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ غالباً ان کا اشارہ اس جانب تھا کہ فیصلہ ہونے تک وہی پارٹی کنوینر ہیں اور انہی کی درخواست پر پتنگ کا نشان ان کے گروپ کو الاٹ ہوا ہے۔
مگر متحدہ کے سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان کا کہنا ہے کہ انتخابی نشان شخصیت کو نہیں پارٹی کو الاٹ ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم کو پتنگ کا نشان الاٹ ہوگیا ہے لہٰذا ہم آئندہ انتخابات میں پتنگ کے نشان سے ہی حصہ لیں گے۔
عائشہ گلالئی بھی روٹھ گئیں
پاکستان تحریکِ انصاف سے علیحدہ ہوکر نیا سیاسی گروپ بنانے والی عائشہ گلالئی 'بلے' کی جگہ 'ریکٹ' کا انتخابی نشان ملنے پر روٹھ گئیں۔ انہوں نے 'بلے؛ کے نشان کے لیے درخواست دی تھی جو مسترد کردی گئی ہے۔ اب گلالئی کہتی ہیں کہ وہ عدالت سے رجوع کریں گی۔
خوش ہونے والی واحد جماعت
صرف ایک سیاسی جماعت ایسی ہے جو ماضی میں انتخابات جیتنے اور برسرِ اقتدار رہنے کے باوجود پرانا الیکشن سمبل چھوڑ کر نئے نشان پر خوش ہے۔ یہ ہے مسلم لیگ (ق) جو 'سائیکل' کے انتخابی نشان پر الیکشن جیت کر اقتدار میں آئی تھی مگر اب 'ٹریکٹر' ملنے پر بھی خوش۔۔ بلکہ شکر گزار ہے۔
انتخابی نشانات اہم کیوں؟
پاکستان میں خواندگی کی کمی کی وجہ سے انتخابی نشان بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ناخواندہ افراد بیلٹ پیپرز پر انتخابی نشان دیکھتے ہی اس پر مہر ثبت کر دیتے ہیں۔
ان پڑھ تو ان پڑھ ۔۔ پڑھے لکھے افراد بھی بیلٹ پیپر پر لکھے امیدوار کا نام تلاش کرنے کے بجائے 'وقت کی کمی' کا گلہ کرتے ہوئے صرف انتخابی علامت کو دیکھتے اور ووٹ ڈال دیتے ہیں۔
پاکستانی ووٹرز میں یہ رجحان عام ہے کہ وہ پارٹی قیادت سے لگاؤ اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر ووٹ ڈالتا ہے۔ بہت ہی کم معاملات میں 'امیدوار' اور اس کی اہلیت اور قابلیت کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔
بیشتر کو تو یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے حلقے سے کھڑے ہونے والا امیدوار کون ہے؟ اس کا پس منظر کیا ہے؟ وہ کس حد تک سیاسی سمجھ بوجھ رکھتا ہے؟ اس کے مقابلے میں صرف پارٹی قیادت کو دیکھا اور ووٹ ڈال دیا جاتا ہے۔
اہم ترین مثال
اس بات کی اہم ترین مثال 2013ء کے انتخابات میں کراچی سے پی ٹی آئی کو پڑنے والے وہ ساڑھے آٹھ لاکھ ووٹ ہیں جو پی ٹی آئی کو ایم کیو ایم کے گڑھ سمجھے جانے والے حلقوں سے ملے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ ان ووٹوں کے پڑنے کی وجہ یہ تھی کہ لوگ پارٹی سربراہ عمران خان کو پسند کر رہے تھے اور کم از کم ایک مرتبہ آزمانا ضرور چاہتے تھے۔
حقیقت یہ تھی کہ 90 فی صد ووٹرز اپنے حلقوں سے کھڑے ہونے والے امیدواروں کے ناموں تک سے بے خبر تھے۔ لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
ہوا یہ کہ ووٹرز نے پولنگ کے وقت ’انتخابی علامت‘ کو بیلٹ پیپر پر تلاش کیا اور 'حلقے کے امیدوار' کے نام تک کو نظر انداز کرتے ہوئے 'پارٹی قیادت' کو ذہن میں رکھا اور اسے ہی ووٹ ڈالا۔