الزائمرز کے خطرے سے دوچار لوگوں پر کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق معتدل درجے کی جسمانی سرگرمیاں انسانی دماغ کے ’ہپوکیمپس‘ نامی حصے کو سکڑنے سے بچاتی ہے۔
کراچی —
محقیقین کا کہنا ہے کہ ورزش کرنے سے انسان یادداشت کی خرابی سے متعلق بیماری الزائمرز سے بچ سکتا ہے۔
الزائمرز کے خطرے سے دوچار لوگوں پر کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق معتدل درجے کی جسمانی سرگرمیاں انسانی دماغ کے ’ہپوکیمپس‘ نامی حصے کو سکڑنے سے بچاتی ہے۔ ہپوکیمپس کا تعلق یاداشت سے ہوتا ہے اور یہ دماغ کا وہ حصہ ہے جو الزائمرز میں سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے روح ِرواں یونیورسٹی آف میری لینڈ کے اسکول آف پبلک ہیلتھ کے محقق ڈاکٹر کارسن اسمتھ کا کہنا ہے کہ الزائمرز کے مرض میں مریض کو جینیاتی طور پر
دماغی صلاحیتوں کی کمی کا خطرہ ہوتا ہے اور اچھی خبر یہ ہے کہ جسمانی طور پر سرگرم رہنے سے اس دماغی ٹوٹ پھوٹ سے بچا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر اسمتھ اور ان کے ساتھیوں نے 65 سال سے لے کر 79 سال کے صحت مند معمر افراد کے چار گروپوں پر ڈیڑھ سال تک نظر رکھی۔ اٹھارہ مہینوں تک جاری رہنے والی اس تحقیق کے شروع اور آخر میں ان سب کے دماغ کا ایم آر آئی ٹیسٹ کیا گیا اور صرف ان بزرگوں کے دماغ میں یاداشت سے تعلق رکھنے والا حصہ ہپوکیمپس سکڑا ہوا تھا جو الزائمرز کا شدید خطرہ ہونے کے باوجود ورزش نہیں کرتے تھے۔
یونیورسٹی آف پٹسبرگ میں ماہر ِنفسیات ڈاکٹر کرک ارکسن کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو جینیاتی طور پر الزائمرز کا خطرہ ہوتا ہے ان کے دماغ کے حصے ہپوکیمپس کو محفوظ رکھنے میں ورزش کے کردار پر ہونے والی یہ پہلی تحقیق ہے اور اس بیماری کا کوئی اور علاج موجود نہیں ہے۔
الزائمرز کے مرض پر تحقیق کرنے والی الزائمرز ایسوسی ایشن کے مطابق ورزش سے دماغ میں خون کی روانی بہتر رہتی ہے۔ بہترین نتائج کے لئے معتدل ورزش کے ساتھ ساتھ اچھی غذا، ذہنی سرگرمیاں اور سماجی مصروفیات الزائمرز سے بچنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔
الزائمرز کے خطرے سے دوچار لوگوں پر کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق معتدل درجے کی جسمانی سرگرمیاں انسانی دماغ کے ’ہپوکیمپس‘ نامی حصے کو سکڑنے سے بچاتی ہے۔ ہپوکیمپس کا تعلق یاداشت سے ہوتا ہے اور یہ دماغ کا وہ حصہ ہے جو الزائمرز میں سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے روح ِرواں یونیورسٹی آف میری لینڈ کے اسکول آف پبلک ہیلتھ کے محقق ڈاکٹر کارسن اسمتھ کا کہنا ہے کہ الزائمرز کے مرض میں مریض کو جینیاتی طور پر
دماغی صلاحیتوں کی کمی کا خطرہ ہوتا ہے اور اچھی خبر یہ ہے کہ جسمانی طور پر سرگرم رہنے سے اس دماغی ٹوٹ پھوٹ سے بچا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر اسمتھ اور ان کے ساتھیوں نے 65 سال سے لے کر 79 سال کے صحت مند معمر افراد کے چار گروپوں پر ڈیڑھ سال تک نظر رکھی۔ اٹھارہ مہینوں تک جاری رہنے والی اس تحقیق کے شروع اور آخر میں ان سب کے دماغ کا ایم آر آئی ٹیسٹ کیا گیا اور صرف ان بزرگوں کے دماغ میں یاداشت سے تعلق رکھنے والا حصہ ہپوکیمپس سکڑا ہوا تھا جو الزائمرز کا شدید خطرہ ہونے کے باوجود ورزش نہیں کرتے تھے۔
یونیورسٹی آف پٹسبرگ میں ماہر ِنفسیات ڈاکٹر کرک ارکسن کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو جینیاتی طور پر الزائمرز کا خطرہ ہوتا ہے ان کے دماغ کے حصے ہپوکیمپس کو محفوظ رکھنے میں ورزش کے کردار پر ہونے والی یہ پہلی تحقیق ہے اور اس بیماری کا کوئی اور علاج موجود نہیں ہے۔
الزائمرز کے مرض پر تحقیق کرنے والی الزائمرز ایسوسی ایشن کے مطابق ورزش سے دماغ میں خون کی روانی بہتر رہتی ہے۔ بہترین نتائج کے لئے معتدل ورزش کے ساتھ ساتھ اچھی غذا، ذہنی سرگرمیاں اور سماجی مصروفیات الزائمرز سے بچنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔