کیا امریکہ میں کوئی شخص کسی اور کا بھی ووٹ ڈال سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب آپ کو حیرت میں مبتلا کرسکتا ہے۔
امریکہ کی کئی ریاستوں میں اس سوال کا جواب ’ہاں‘ میں ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح ایک ووٹر کا حقِ رائے دہی کوئی اور استعمال کرسکتا ہے۔ بلکہ اس کا تعلق امریکہ میں ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی سہولت سے ہے جس کے لیے کئی قواعد و ضوابط بھی بنائے گئے ہیں۔
یہ کیسے ممکن ہوتا ہے؟ اسے سمجھنے کے لیے پہلے ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی سہولت کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
امریکہ میں 1861 سے 1865 تک جاری رہنے والی خانہ جنگی کے دوران بھی انتخابات کا انعقاد ہوا تھا۔ اس انتخاب میں محاذ پر لڑنے والے فوجیوں کو ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔
بعدازاں اس سہولت کا دائرہ بڑھا دیا گیا۔ اپنے انتخابی حلقوں سے دور رہنے والے یا بیرونِ ملک مقیم امریکیوں کو بھی یہ سہولت فراہم کردی گئی۔ اس کے لیے ہر ریاست کے الگ الگ قوانین ہیں۔
البتہ اسی سہولت کی وجہ سے کئی امریکی شہری صدارتی انتخاب یا اس کے دو برس بعد ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں پولنگ کے لیے مقررہ دن سے قبل ہی اپنا ووٹ کاسٹ کرسکتے ہیں۔
مختلف ریاستوں کے مختلف قوانین کے ساتھ براہ راست ووٹ ڈالنے کے مراکز پر جانے کے بجائے شہری ڈاک کے ذریعے اپنا بیلٹ پیپر طلب کرسکتے ہیں اور ووٹ دینے کے بعد یہ بیلٹ ڈاک کے باکس یا بیلٹ پیپر کے لیے مخصوص ڈراپ باکس تک پہنچا سکتے ہیں۔
SEE ALSO: مڈ ٹرم الیکشن: امریکہ میں ہر دو سال بعد انتخابی میدان کیوں سجتا ہے؟اسی طرح مختلف قواعد کے ساتھ یہ سہولت حاصل کرنے والے ووٹرز اپنا بیلٹ کسی اور کے ہاتھ ڈراپ بکس تک پہنچا سکتے ہیں۔
مثلاً ریاست ایریزونا اور اس جیسے قوانین رکھنے والی دیگر ریاستوں میں کسی ووٹر کی دیکھ بھال کرنے والے، اہل خانہ یا گھر کے افراد کسی اور کا استعمال کیا گیا بیلٹ پیپر ووٹ جمع کرنے کے لیے مقرر کردہ بیلٹ باکس میں ڈال سکتا ہے۔
الیکشن سے متعلق دیگر قوانین کی طرح امریکہ میں بیلٹ پیپر کو ڈراپ بکس یا انتخابی عملے تک پہنچانے سے متعلق قوانین بھی مختلف ریاستوں میں الگ الگ ہیں۔مثلاً کیلی فورنیا میں ووٹر کا نامزد کردہ کوئی بھی شخص اس کا بیلٹ جمع کرا سکتا ہے۔
لگ بھگ امریکہ کی نصف ریاستوں میں ایسے قوانین موجود ہیں جن میں ووٹر کو کسی دوسرے شخص کے ذریعے اپنا ووٹ ڈاک یا بیلٹ جمع کرانے کے مخصوص ڈبوں تک پہنچانے کی سہولت دی گئی ہے۔
ان قوانین کا مقصد لوگوں کے لیے ووٹنگ میں زیادہ سے زیادہ شرکت کو آسان بنانا ہے۔ خاص طور پر ایسے ووٹر جو اپنا بیلٹ خود پہنچانے کے لیے سفر نہ کرسکتے ہوں وہ اس سہولت سے بہ آسانی اپنے ووٹ کا حق استعمال کرتے ہیں۔
تنقید اور الزامات
کرونا وائرس کی وبا کے دوران شہریوں کے گھروں تک محدود ہونے کی وجہ سے 2020 کے صدارتی انتخاب میں ڈاک کے ذریعے ووٹنگ میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ اسی دوران بعض حلقوں نے ڈاک کے ذریعے ووٹنگ کے طریقہ کار پر نکتہ چینی بھی کی۔
سابق صدر ٹرمپ اور ان کے حامیوں ںے یہ الزام بھی عائد کیا کہ کسی اور کو ووٹر کا بیلٹ لے جانے کی اجازت دینے سے اس بات کا امکان ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر ووٹر کی مرضی کے برخلاف یا کسی اور کی جگہ ووٹ کاسٹ کرسکتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
تاہم ان الزامات کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔ بلکہ 2020 کے صدارتی انتخاب کے بعد سامنے آنے والی کئی سروے رپورٹس سے پتا چلتا ہے کہ صدر بائیڈن کو ووٹ دینے والے رائے دہندگان کے مقابلے میں ٹرمپ کے ووٹرز نے زیادہ بڑی تعداد میں ڈاک کے ذریعے بیلٹ کا استعمال کیا تھا۔
امریکہ میں انتخابی عمل کے محفوظ ہونے سے متعلق امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ووٹنگ کے کسی بھی طریقے میں جعل سازی یا فراڈ کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس میں ڈاک کے ذریعے بیلٹ طلب کرنے اور انہیں ڈراپ بکس تک پہنچانے کا طریقہ بھی شامل ہے۔
اس بارے میں عام طور پر الزمات ہی سامنے آتے رہے ہیں لیکن کبھی الزام عائد کرنے والوں نے اپنے دعوے کے حق میں ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مئی 2022 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق امریکہ کی جن ریاستوں میں ڈراپ باکس میں ووٹ ڈالنے کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ ان میں سے ایک میں بھی انتخابی نتائج کو متاثر کرنے والے کسی فراڈ یا جعل سازی کی شکایت سامنے نہیں آئی۔
اس تحریر میں شامل مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا ہے۔