امریکہ کے اعلی عہدیدر اتوار کے روز صدر ٹرمپ کے اس بیان کی تلافی کرتے نظر آئے جس میں انہوں نے دعوی کیا تھا کہ ایران کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی ڈرون حملے میں مارے جانے سے قبل امریکہ کے چار سفارت خانوں کو اڑا دینے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
وزیردفاع مارک ایسپر نے سی بی ایس نیوز کے پروگرام ’’فیس دا نیشن ‘‘میں گفتگو کرتے ہوئے کہا، "میں نے ایسی کوئی خفیہ رپورٹ نہیں دیکھی جس میں ایران سے امریکی سفارت خانوں کو کوئی واضح خطرہ ہو، لیکن مجھے یقین ہے کہ جب صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ ایسا کوئی خطرہ تھا، تو پھر ہو گا‘‘۔
پینٹاگان کے سربراہ نے مزید کہا کہ جب میں کہتا ہوں کہ میں صدر کے خیالات سے متفق ہوں تو غالباً اس سے مراد یہ کہ میری توقع ہے کہ وہ ہمارے چار سفارت خانوں پر حملے کی تیاری کر رہے ہوں گے‘۔‘
وزیردفاع مارک ایسپر نے ایک اور انٹرویو میں سی این این کے پروگرام 'سٹیٹ آف دا یونین' میں بتایا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سلیمانی امریکہ کی تنصیبات پر چند ہی دن بعد حملہ کرنے والے تھے جب وہ تین جنوری کو ڈرون حملے میں مارے گئے۔‘‘
ایران نے اپنے جنرل کی ہلاکت کے بعد عراق میں امریکہ کے زیر استعمال دو فوجی اڈون پر سولہ بیلسٹک میزائل داغے تھے تاہم امریکہ کا کہنا ہے کہ اسے ان حملوں کی خبر چند گھنٹے پہلے مل گئی تھی، جس کے بعد وہ اپنے فوجیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ کسی امریکی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
ادھر کیپیٹل ہل پر سلیمانی کی ہلاکت سے متعلق کانگریس کی تفصیلی بریفنگ میں شامل اراکین نے بشمول ہاؤس کی انٹیلی جینس کمیٹی کے سربراہ ایڈم سکف نے بتایا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے چار امریکی سفارت خانوں پر ایران کے ممکنہ حملوں سے متعلق کبھی کوئی ذکر نہیں کیا ہے۔
تاہم امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن نے فاکس نیوز سنڈے شو میں کہا کہ وہ اس خفیہ معلومات کے بارے میں ہمارے اوپر بھروسہ کر سکتے ہیں جس میں جنرل سلیمانی سے خطرات کا بتایا گیا ہے۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس کے بارے میں حتمی معلومات کا ہونا ہمیشہ مشکل ہوا کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس خطے میں امریکی تنصیبات کو واضح خطرہ درپیش تھا۔
ہاؤس کی اسپیکر نینسی پلوسی نے کہا ہے کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ انتظامیہ امریکی کانگریس کے ساتھ سیدھے طریقے سے چل رہی ہو۔
عراق میں امریکی فوجوں پر ایران کے میزائل حملے کے بعد صدر ٹرمپ اپنی ان دھمکیوں سے پیچھے ہٹ گئے تھے جن میں انہوں نے کہ مزید فوجی حملوں کے بارے میں ایران کو انتباہ جاری کر رکھا تھا۔ صدر نے حملوں کی بجائے ایران کے خلاف مزید معاشی پابندیوں پر اکتفا کیا تھا۔
اوبرائن نے کہا کہ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ حد تک دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی کام کر رہی ہے۔ ایران بوکھلا گیا ہے اور ایران کے لیے مشکل بنا دیا گیا ہے کہ وہ مشرق وسطی میں اپنی قدس فورس کے آپریشن کے لیے فنڈز حاصل کر سکے۔
اوبرائن نے مزید کہا کہ ایران کی جانب سے اس اعتراف کے بعد کہ اس کی فوج نے غلطی سے یوکرائن کے مسافر طیارے کو مار گرایا تھا، تہران میں پھوٹنے والے طالب علموں کے مظاہرے بھی ایران پر دباؤ بڑھا رہے ہیں کہ وہ دنیا کے ساتھ اپنے جوہری پروگرام پر معاہدے پر دوبارہ بات چیت کرے۔