امریکی وزیر دفاع رابرت گیٹس نے آج افغانستان کا غیر اعلانیہ دورہ کیا۔ یہ اور صدر اوباما کا دورہ ایسے وقت میں ہوا جب آئندہ کچھ دنوں میں اوباما انتظامیہ افغانستان کے لیے اپنی حکمت عملی کے حاصل شدہ نتائج کا جائزہ لینے والی ہے۔ اپنے حالیہ دورہِ افغانستان میں صدر اوباما نے فوجیوں سےاپنے خطاب میں کہا تھا کہ انہیں اپنے مشن میں کامیابی ہورہی ہے اور شورش پسند اپنے مضبوط گڑھ چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں ۔ لیکن امریکہ کے سابق جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل رچرڈ مائرز کا کہنا ہے کہ انتہاپسندی کی جڑ ختم کرنے کے لیے فوجی قوت کے علاوہ دوسرے ذرائع پر بھی توجہ دینا بھی ضروری ہے۔
اس ہفتے افغانستان کے دورے کے دوران صدر اوبامانے افغانستان میں موجود امریکی فوجیوں سے ایک خطاب کے دوران کہا کہ افغانستان میں امریکی کارروائیوں کا مقصد ہے افغانستان کے ساتھ شراکت دارے کے مواقع پیدا کرنا اور امریکہ کو دہشت گرد حملوں سے محفوظ رکھنا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس ملک کو دہشت گردوں کی پناہ گاہ نہیں بننے دیں گے جو امریکہ پر پھر سے حملہ کر سکیں۔
امریکہ کے سابق جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل رچرڈ مائرکا کہنا ہےکہ امریکہ کی حکمت عملی کچھ حد تک کامیاب رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ القاعدہ اب عالمی سطح پر اپنی کارروائیوں میں محدود ہو گئی ہے اور اسے اب اتنی آزادی حاصل نہیں جتنی اسے 9/11 سے پہلے حاصل تھی۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ہم انتہاپسندی کی جڑ کا خاتمہ کر رہے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنی حکمت عملی میں فوجی قوت کے علاوہ دوسرے ذرائع کا استعمال بھی بہتر طریقے سے کرنا چاہیے۔ مثلا اقتصادی قوت، سیاسی قوت، تعلیم اور معلومات کی قوت۔۔۔ ہمیں فوجی قوت کے علاوہ ان تمام وسائل پر زیادہ توجہ دینی چاہیے ۔میں سمجھتا ہوں کہ ہم نے اب تک ہماری حکمت عملی کا انحصار ضرورت سے زیادہ فوج پر رہا ہے۔
حال ہی میں امریکی خبر رساں اداروں واشنگٹن پوسٹ، اے بی سی نیوز،برطانوی نیوز چینل بی بی سی اور جرمن ٹی وی چینل اے آرڈی نے افغانستان کے مختلف صوبوں میں رائے عامہ کاجائزہ لیا۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان کے بہت سے صوبوں میں اتحادی افواج کی کامیابی کے بارے میں لوگوں میں غیر یقینی کا رجحان پایہ جاتا ہے جبکہ ہلمند اور قندہار کے 67فی صد شہریوں کے مطابق اتحادی فوج کی کارروائیوں کی وجہ سے صورت حال بہت بہترہو گئی ہے۔
جنرل مائر کہتے ہیں کہ کچھ مایوسی ضرورہے۔ افغانستان کے بعض علاقوں میں امریکی حکمت عملی کی کامیابی کے بارے میں لوگوں کے تاثرات میں کچھ تبدیلی آئی ہے۔ لیکن ہلمند کے صوبے میں ، قندہار میں صورت حال کے بارے میں لوگوں کے زیادہ مثبت تاثرات ہیں۔ دونوں اقتصادی صورت حال اور بین الاقوامی حکمت عملی کے نتائج، کے حوالے سے۔اس میں دونوں رجحانات موجود ہیں۔ایک بات جو میرے لیے کچھ باعث حیرت تھی وہ یہ تھی کہ بیشتر افغان طالیبان کو سیاسی عمل کا حصہ بنتا دیکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتے کہ طالبان ایک مرتبہ پھر اقتدار میں آئیں۔
رائے عامہ کے اس سروے میں شامل تقریبا 50 فی صد افغان یہ چاہتے ہیں کے امریکہ اور نیٹو 2011ء میں اتحادی فوج کو افغانستان سےنکالنا شروع کر دے ۔ گو امریکی صدر باراک اوبامانے حال ہی میں اس عمل کے لیے 2014ءکی تاریخ مقرر کی ہے۔ فوجی کارروائیوں کے علاوہ افغانستان کے لیے امریکی حکمت عملی کا ایک دوسرا اہم جزو افغانوں کے ساتھ اچھے تعلقات کی بنیاد ڈالنا ہے۔ لیکن افغانستان کے لیے سابق امریکہ سفیر رونلڈ نیومین کا کہنا ہے کہ امریکہ کواس سلسلے میں مزید کوشش کرنی ہو گی۔
سابق امریکی سفیر نیومن کا کہنا ہے کہ لوگوں کو افغان حکومت پر اعتبار نہیں۔ لیکن مغربی ملکوں پر ان کے اعتماد کی کمی اس سے بھی بڑا مسئلہ ہے۔ اگر آپ کو یہ یقین نہیں کہ لوگ آپ کا ساتھ دیتے رہیں گے تو آپ بھی اپنے آپ کو بچانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کو تیار ہوں گے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز کے 9 سال بعد آج بھی امریکہ کو افغانستان میں بہت سے مسائل درپیش ہیں، جن میں افغانستان کی رائے عامہ کے علاوہ انتہاپسندی کے رجحانات بھی شامل ہیں۔ماہرین کو توقع ہے کہ آئندہ کچھ دنوں میں ہونے والے جائزے میں ان مسائل کو بھی پیش نظر رکھا جائے گا۔