امریکہ میں انصاف کا محکمہ یا ڈپارٹمنٹ آف جسٹس اپنے اعلیٰ معیار اور غیر جانبداری کی روایات کیلئے مشہور ہے۔ اس میں اٹارنی جنرل کا عہدہ اگرچہ سیاسی ہوتا ہے مگر کوئی بھی سیاسی فیصلہ آئین اور قانون کا متقاضی ہوتا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
حال ہی میں امریکی جسٹس ڈپارٹمنٹ بعض ایسے اقدامات کیلئے تنقید کی زد میں آیا ہے جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار نے یہ اقدامات سیاسی مصلحت کی بنا پر اٹھائے ہیں۔ ان میں تازہ ترین واقعہ نیویارک کے سدرن ڈسٹرکٹ کے انتہائی اہم یو ایس اٹارنی جیفری برمن کو ان کے عہدے سے ہٹانا شامل ہے۔
جیفری برمن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نیویارک کے سب سے اہم ڈسٹرکٹ میں اہم تحقیقات کر رہے تھے جن میں صدر ٹرمپ کے لائیر روڈی جولیانی اور ایک ترک بنک کے خلاف چھان بین بھی شامل تھی۔ اس سے پہلے وہ صدر ٹرمپ ہی کے ایک لائر مائیکل کوہن کے خلاف چھان بین کے بعد انہیں جیل بھجوا چکے ہیں۔
گذشتہ جمعے کے روز جیفری برمن کے بارے میں اٹارنی جنرل ولیم بَر نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفےٰ دے رہے ہیں اور ان کی جگہ جے کلیٹن کو نیو یارک کے سدرن ڈسٹرکٹ کا اٹارنی بنایا جا رہا ہے۔ جے کلیٹن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قانون دان ضرور ہیں مگر انہیں پراسیکیوشن کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔
ابھی میڈیا میں یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ جیفری برمن نے اپنا عہدہ چھوڑنے سے انکار کر دیا ار کہا کہ وہ استعفےٰ دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے اور یہ کہ انہیں صرف صدر ہی ان کے عہدے سے ہٹا سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ برمن یہ بھی چاہتے تھے کہ ان کے بعد ان کی نائب آڈری سٹراس کو ان کا قائم مقام بنایا جائے۔
چنانچہ معاملے کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے اٹرنی جنرل بَر نے صدر ٹرمپ کو اعتماد میں لے کر برمن کو ایک خط میں عہدہ چھوڑنے کیلئے کہا اور کہا کہ صدر ایسا چاہتے ہیں۔ البتہ، بعد میں صدر ٹرمپ نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں اور یہ ولیم بَر کا شعبہ ہے۔
تاہم، اپنی نائب آڈری سٹراس کو اپنا قائم مقام بنایا جانے کے بعد جیفری برمن نے ہفتے کے روز اپنا عہدہ چھوڑ دیا۔
ظفر طاہر ہیوسٹن ٹیکسس میں اٹارنی ایٹ لا ہیں۔ وہ کہتے ہیں امریکہ میں نیویارک کے سدرن ڈسٹرکٹ کی بہت اہمیت ہے اور اس کا یو ایس اٹارنی ایک انتہائی اہم عہدہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ جیفری برمن کی اہمیت اور بھی زیادہ تھی کیونکہ وہ نہ صرف اس سے پہلے صدر ٹرمپ کے ایک لائیر کے خلاف کامیاب چھان بین کر چکے تھے بلکہ روڈی جولیانی کے خلاف ان کی تحقیقات بھی کامیابی سے جاری تھیں۔
امریکہ میں یو ایس اٹارنی کا دفتر وفاقی کیسز میں امریکہ کی نمائندگی کرتا ہے۔ اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کے عہدیدار کانگریس کے منظور کردہ قانون کے تحت مقرر کئے جاتے ہیں اور ان کیسز کی سماعت ملک بھر کی وفاقی عدالتوں میں ہوتی ہے۔
امریکہ کی پچاس ریاستوں میں کل ترانوے یو ایس اٹارنیز ہیں جو پراسیکیوٹرز ہیں۔ اور امریکہ کے وفاقی فوجداری نظامِ انصاف کے مطابق ان پراسیکیوٹرز کا وسیع اختیار ہوتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ کب، کہاں، اور کس کے خلاف حتیٰ کہ کس فوجداری قانون کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جائے۔
عدنان منور مین ہیٹن نیو یارک میں اٹارنی ایٹ لا ہیں۔ وہ کہتے ہیں فی الوقت ایک یو ایس اٹارنی کو عہدے سے ہٹانے پر جو تنقید کی جا رہی ہے یہ بلاجواز ہے، کیونکہ یہ اٹارنیز ملک کے اٹارنی جنرل کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں۔ اور ان کی نامزدگی صدر کرتے ہیں، چنانچہ صدر جب چاہیں انہیں ان کے عہدے سے ہٹا سکتے ہیں۔
امریکہ میں صدر ٹرمپ کے سابق سیکیوریٹی ایڈوائیزر مائیکل فلن کے بارے میں ایک اپیل کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ان کے خلاف الزامات ختم کر دئیے جائیں۔ مائیکل فلن پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ انہوں نے روسی سفیر سے اپنی ملاقات کے بارے میں نائب صدر مائیک پینس کے سامنے غلط بیانی کی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ اس سے پہلے صدر ٹرمپ کے قریبی ساتھی راجر سٹون کو سات سال کیلئے سنائی گئی سزا کم کرنے کیلئےمحکمہ انصاف نے مداخلت کی تھی، جس پر ان کے خلاف چھان بین کرنے والے چار یو ایس اٹارنیز نے استعفےٰ دے دیا تھا۔ راجر سٹون پر الزام ہے کہ انہوں نے ایوان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے وکی لیکس سے رابطے کی کوششوں کے بارے میں غلط بیانی کی۔وکی لیکس وہی ویب سائٹ ہے جس نے سن 2016ء کے انتخابات سے پہلے امریکہ کی صدارتی امیدوار ہلیری کلنٹن کی انتخابی مہم کی ای میلز لیک کی تھیں۔
ان تمام حقائق کے باوجود نیویارک کے اٹارنی عدنان منور کہتے ہیں کہ امریکہ کے نظامِ انصاف میں کسی قانونی اختیار کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ سزا میں کمی کیلئے بعض قانونی تقاضے پورے کرنے ضروری ہیں اور یہ رعایت ہر اس ملزم کو مل سکتی ہے جوان تقاضوں کو پورا کرے۔
امریکہ میں یہ الیکشن کا سال ہے اور حکومتی عہدیداروں کے ایسے اقدامات کو جن سے کوئی سیاسی مقصد ظاہر ہوتا ہو اسی آئینے میں دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مگر عدنان منور کا کہنا ہے کہ یہ سب قیاس آرائیاں ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ جن کے پاس اختیار ہے وہ اپنا اختیار استعمال کر رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ امریکی صدر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی کی بھی سزا یا قصور معاف کر سکتے ہیں اور امریکی تاریخ بتاتی ہے کہ اکثر صدور ایسا الیکشن کے قریب کرتے رہے ہیں۔
تاہم، ہیوسٹن کے اٹارنی ظفر طاہر کہتے ہیں کہ ایسے اقدامات سے فائدے کے بجائے نقصان ہو رہا ہے جیسا کہ نیو یارک کے سابق مئیر روڈی جولیانی کے معاملے میں جن کی چھان بین جیفری برمن کر رہے تھے اور جو صدر ٹرمپ کے ذاتی لائیر بھی ہیں۔
بہرحال، ماہرین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے اور اس کا نظامِ انصاف حقائق اور ثبوت کی بنا پر فیصلے کرتا ہے۔ اس ملک کے آئین کی مکمل پاسداری کی جاتی ہے اور صدر سمیت اس کے تمام عہدیدار آئین اور قانون میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں۔