ایران اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کی فضا میں، یوں لگتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ نے اپنی جنوبی ساحلوں پر طیارہ بردار بحری بیڑے کا ایک نیا نقلی ماڈل تیار کر لیا ہے۔
خبر رساں ادارے، دی ایسوسی ایٹد پریس نے منگل کے روز، نقلی بیڑے کی تصاویر حاصل کی ہیں، جو خلیج فارس میں معمول کی گشت پر مامور امریکہ کے جوہری توانائی سے چلنے والے طیارہ بردار بیڑے سے مشابہہ ہے۔ دنیا میں پیدا ہونے والے تیل کا بیس فیصد خلیج فارس کے دہانے سے گزرتا ہے۔
ابھی تک ایرانی عہدیداروں نے اس کی تصدیق تو نہیں کی، لیکن اس نقلی بحری بیڑے کی ساحلی شہر بندر عباس میں موجودگی سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی پاسداران انقلاب، سن 2005ء میں بحری مشقوں کے دوران امریکی بحری بیڑے کی نقلی غرقابی کو دہرانا چاہتی ہے۔
یہ سب ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب منگل کے روز ہی ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ پاسدارانِ انقلاب کےسابق کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی نقل و حرکت کی امریکہ کو معلومات فراہم کرنے والے مبینہ ملزم کو پھانسی کی سزا دیگا۔
جنرل سلیمانی کو اس سال جنوری میں امریکی حملے میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر میں اس نقلی بحری بیڑے کےڈیک پر سولہ نقلی لڑاکا طیاروں کو سوار دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ نقلی بیڑہ دو سو میٹر لمبا جبکہ اس کی چوڑائی پچاس میٹر ہے۔ اصلی امریکی بحری بیڑہ، جس کی نقل بنائی گئی ہے، تین سو میٹر لمبا اور پچھتر میٹر چوڑا ہے۔
یہ طیارہ اس مقام سے تھوڑے ہی فاصلے پر کھڑا ہے جہان مئی میں ایک سو نئی اسپیڈ بوٹس کو متعارف کرایا گیا تھا۔ ان تیز رفتار کشتیوں پر مشین گنیں اور میزائل نصب ہیں۔