انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنینشل نے کہا ہے 2016 کے دوران دنیا کے بھر میں اہم معاملات بشمول شام ، یمن اور جنوبی سوڈان میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے لاتعلقی اور ان معاملات پر متنازع اور تشویشناک حد تک بڑھتی ہوئی سیاسی بیان بازی نمایاں رہی، جو کہ باعث تشویش ہے۔
بدھ کو جاری ہونے والی ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں امیر اور غریب ممالک کو اس بارے میں یکساں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنینشل کے جنرل سیکرٹری سلیل شیٹی نے پیرس میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ "اگر آپ 2016ء کے بارے میں سوچیں تو یہ وہ سال تھا، جو ہمارے جائزے کے مطابق خواتین، مردوں ور بچوں کے حقوق سے لاتعلقی اور ان کے لیے حقارت کی وجہ سے خراب رہا۔ "
"یہ وہ سال ہے جس میں دنیا بھر میں 'ان کے مقابلے میں ہم' کی نقصان دہ سیاسی بیان بازی میں اضافہ ہوا۔ "
'دنیا میں انسانی حقوق کی صورت حال' نامی رپورٹ میں اتھیوپیا، بنگلادیش، اور روس جیسے ملکوں میں حکومتوں کی طرف سے اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹنے سے لے کر شام، یمن اور سوڈان میں عام شہریوں پر ہونے والے حملوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شام میں اسکولوں اور اسپتالوں پر ہونے والے مہلک حملے، دارفر میں ہونے والے کیمیائی حملے اور فلپائن میں منشیات کی سمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف ہونے والی مہلک کارروائی کے بارے میں "مکمل خاموشی" اختیار کی گئی۔
شیٹی نے کہا کہ"ہم ایک ایسے مرحلے پر پہنچ چکے ہیں جہاں کوئی بھی سرخ لکیر (یعنی حد) نہیں ہے۔"
انسانی حقو ق کی بین الاقوامی تنظیم نے اپنی رپورٹ میں افریقہ میں ناانصافی اور یورپ میں کئی عوامی گروپوں کی طرف سے تارکین وطن کی مدد کرنا اور امریکہ میں پولیس کے مبینہ ظلم کے خلاف عوامی سطح پر بلند ہونے والے آواز کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی ہے۔
شیٹی نے کہا کہ "اس رپورٹ کا پیغام یہ ہے کہ جہاں راہنما ناکام ہوئے وہاں لوگوں کو (اپنی) آواز بلند کرنی ہو گی۔"