اگر آپ کو متحدہ عرب امارات کی بلند وبالا اور جدیدتعمیرات پر مشتمل شہر دبئی کے قریب ریت کے ایک وسیع صحرا میں دبے ایک گاؤں جانے کا موقع ملے ،جس کے مکین صرف 20 سال قبل اسے چھوڑ کر قریبی شہروں میں آباد ہو گئے تھے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ امارات کی دیہی آبادیوں نے کس قدر تیزی سے شہری زندگی اپنائی اور کتنی تیزی سے اپنے غربت زدہ ماضی سے نجات حاصل کی ہے ۔ ایسا کیوں کر ہوا؟ لیجئے یہ کہانی ہم سناتے ہیں۔
ریت کے ایک وسیع صحرا کے درمیان ریت میں دبا یہ چھوٹا سا صحرائی گاؤں، الغریفہ دبئی سے ایک گھنٹے کی ڈرائیو پر المدام شہر کے قریب واقع ہے جہاں اکثر مقامی اور غیر مقامی گلوکار، اداکار، ماڈلز اور سیاح متحدہ عرب امارات کے ایک جدید آثار قدیمہ اورا یک زندہ ماضی کو کیمرے کی آنکھ میں جذب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
لیکن اس گاؤں کا اصل حسن اور انفرادیت دو قطاروں میں بنے وہ مکانات ہیں جن کے کمرے اور دیواریں، کھلے دروازوں اور کھڑکیوں سے داخل ہونے والی ریت سے بھرے ہیں اور ریت میں جا بجا دبی گھرکی بکھری ہوئی اشیا ظاہر کرتی ہیں کہ اس گاؤں کے مکین انتہائی عجلت میں یہاں سے بھاگےاور اپنے ساتھ کچھ بھی نہ لے جا سکے۔ لیکن ایسا کیوں ہوا؟
ریت میں ڈھکے ان دو روئیہ بے آبادمکانات اور صحیح حالت میں موجود ایک مسجد پر مشتمل اس گاؤں کےبارےمیں یونیورسٹی آف شارجہ کے ایک اسسٹنٹ پروفیسر اور اس مقام پر ریسرچ کرنے والی ایک ٹیم کےرکن احمد سوکر نےبتایا کہ سات شیوخ کی فیڈریشن ،متحدہ عرب امارات کے قیام کے بعد یہ گاؤں 1971 میں ایک عوامی ہاؤسنگ پراجیکٹ کے سلسلے میں تعمیر کیا گیا تھا۔
اس سے 13 سال قبل تیل کی دریافت سے اس ملک کی تعمیر و ترقی کے دور کا آغاز ہو گیا تھا۔
سوکر نے بتایا کہ اس گاؤں میں الکتبی قبیلے کے لگ بھگ سو ارکان رہتے تھے۔ یہ قبیلہ ان سات بدوی قبائل میں سے ایک تھا جس اس وقت تک ایک نیم خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہا تھا ۔ وہ مویشی پالتا تھا، صحرائی نخلستانوں میں سفر کرتا تھا اور قریبی علاقوں دبئی اور ابو ظہبی کے سفر کرتاتھا ۔ یہ دونوں ہی اس وقت چھوٹے ساحلی قصبے تھے جن کا انحصار ماہی گیری اورپانی سے موتیوں کی تلاش پر تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ سیمنٹ سے بنے ان مکانات کو بنانے کا مقصد یہ تھا کہ ان بدووں کو نیم خانہ بدوشی کی زندگی سے مستقل سکونت کی طرز زندگی میں لا کر انہیں ترقی کے راستے پرگامزن کیا جائے۔ ان مکانات کی اندرونی دیواریں شوخ رنگوں کی تھیں اور کچھ کو پتھروں اور ٹائلوں کے نمونوں سےسجایا گیا تھا۔
سوکر نے بتایا کہ دبئی ابو ظہبی اور متحدہ عرب امارات کے دوسرے علاقوں کی زندگی صرف 20 سال قبل کی زندگی سے انتہائی تیزی سے تبدیل ہوئی ہے اور یہ گاؤں ہمیں یو اے ای کی جدید تاریخ کے بارےمیں معلومات فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ بن سکتا ہے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ مکانات کی تعمیر کے صرف 20 سال بعد وہاں کے سبھی لوگوں کے انخلا کی اصل وجہ کیا تھی۔ قریبی علاقوں کے لوگوں کے بقول عام کہانی یہ ہے کہ انہیں بد روحوں نے وہاں سے بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔
لیکن سوکر کہتے ہیں کہ زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ یو اے ای کے تیزی سے بڑھتے ہوئے شہروں میں بہتر زندگی کی تلاش میں اس گاؤں کو چھوڑ گئے تھے ۔ گاؤں میں بجلی اور پانی نہیں تھا اور وہاں اکثر ریت کی آندھیاں چلتی رہتی تھیِں،لوگوں کو دبئی میں سرکاری ملازمتوں اور اسکولوں تک رسائی کے لیے صحرا کا طویل سفر طے کرنا پڑتا تھا۔
اونٹوں پر سواری کرنے والے اور صحرائی ریت میں کام کرنے والے بدووں کی نئی نسل کے کچھ لوگ ابھی بھی امارات کی دیہی پٹیوں میں رہتے ہیں اگرچہ ان میں سے بہت سے شہروں میں آباد ہو گئے ہیں جہاں جگمگاتی ہوئی بلند وبالا عمارات، ائیر کنڈیشنڈ مال، اور جدید شاہراہوں کا ایک نیٹ ورک موجود ہے ۔
دنیا کے تمام کونوں سے تارکین وطن یو اے ای کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں اور ان میں سے کچھ اس کے نسبتاً غربت زدہ ماضی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
آج کل سیاحتی گائیڈ یہاں آنے والوں کے گروپس کو اس بے آباد گاؤں کی سیر کراتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
میوزک ویڈیو اور سوشل میڈیا کی پوسٹ کے لیے بھی یہ ایک پر کشش مقام بن چکا ہے۔ یہاں غیر ملکی ماڈلز ،فینسی کاروں اور دوسرے سامان تعیش کی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر اور ویڈیو بنواتے ہیں جن کے لیے دبئی اب بہت زیادہ مشہور ہے ۔
میونسپلٹی کے اہل کاروں نے حال ہی میں ایک سیکیورٹی گیٹ، کوڑے دانوں اور ایک پارکنگ لاٹ کے ساتھ اس کے ارد گرد ایک باڑ لگائی ہے ۔
ماضی میں اس جگہ کو دیکھنے کے لیے آنے والے دیواروں پر نقش ونگار اور تحریریں چھوڑ گئے تھے اور دیواروں کی ڈیکوریشن کو کھرچ کا خراب کر گئے تھے۔ وہ اپنے فوٹو بنانے کے لیے نازک چھتوں پر چڑھتے تھے ۔
اس گاؤں کی سیر کے لیے آنے والی بھارت کی ایک تارک وطن نتن پنچل نے کہا کہ ، مجھے حیرت ہے کہ انہوں نے یہ جگہ کیوں چھوڑی ۔ کیا اس کی وجہ کوئی جن یا جننی ہو سکتی ہے ، کیا کوئی کالا جادو ہو سکتا ہے جیسا کہ قریبی علاقوں کے لوگوں کا کہنا ہے ؟ ہمیں ابھی تک کچھ معلوم نہیں ہے۔
نئے حکومتی اقدامات سے اس گاؤں کی کچھ پر اسراریت ختم ہوئی ہے اور ایک ایسے ملک میں جو سیاحتی مقامات سے بھرا ہے ، الغریفہ کے ایک سیاحتی مرکز بننے کے امکانات پیدا کیے ہیں ۔
اس گاؤں میں اپنا بچپن گزارنے والے کچھ مکین ابھی تک اس کے قریبی علاقوں میں آباد ہیں اور اس گاؤں میں گزارے دنوں کی ان کی حسین یادیں میڈیا کے توسط سے دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں اور امارات کی جدید تاریخ، زندہ ماضی اور اس حقیقت کو عیاں کر رہی ہیں کہ امارات کی دیہی آبادیوں نے کتنی تیزی سے شہری زندگی کو اپنایا ہے اور کتنی تیزی سے شہری ترقی کی دوڑ میں شمولیت اختیار کی ہے ۔
( اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔)