پاکستان میں آزادی ابلاغ سے وابستہ گروپ، ’فریڈم نیٹ ورک‘ کے سربراہ اقبال خٹک نے کہا ہے کہ پاکستان میں خبروں کے ادارے انتخابات کے بعد کے منظرنامے پر آزادانہ گفتگو سے احتراز کر رہے ہیں۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ کے بارے میں ’وائس آف امریکہ‘ سے جمعرات کو نشر ہونے والے ریڈیو پروگرام میں بات کرتے ہوئے، اقبال خٹک نے کہا ہے کہ ’’ملک کے ٹیلی ویژن چینل خودساختہ ’سیلف سنسرشپ‘ کے حربے پر عمل پیرا ہیں‘‘۔
اس سلسلے میں، اُنھوں نے الزام لگایا کہ ’’ماسوائے عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف، دیگر سیاسی جماعتوں کو مناسب کوریج نہیں دی جارہی‘‘۔
بقول اُن کے، ’’ناقدین پی ٹی آئی کو فوج کی پسندیدہ جماعت خیال کرتے ہیں، جس نے انتخابات میں زیادہ تر نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے‘‘۔
اقبال خٹک نے کہا کہ ’’وہ سیاسی جماعتیں جنھیں مبینہ دھاندلی کی شکایت ہے، اُنھیں زیادہ تر ٹیلی ویژن چینل کوریج نہیں دیتے‘‘۔
تاہم، اُنھوں نے کہا ہے کہ ’’متبادل کے طور پر، بہت سارے پیشہ ورانہ صحافیوں نے ’ٹوئٹر‘ اور ’فیس بک‘ کا رُخ کیا ہے، جہاں وہ کھل کر بات کرتے ہیں کہ اُنھیں آزادانہ طور پر کام کرنے میں دشواری درپیش ہے‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’سنسر شپ کے ہتھکنڈے بالآخر شک و شبہات اور مایوسی کو جنم دیتے ہیں، اور محض سطحی مباحثے کے نتیجے میں سامعین و ناظرین میڈیا اور جمہوریت پر اعتماد جاری نہیں رکھ پاتے‘‘۔
اینکرپرسن اور کالم نویس سجاد میر نے کہا ہے کہ ’’اُن کے مشاہدے میں یہ باتیں آئی ہیں کہ متعدد اینکر خاص عنوان اور امور کو کوریج دیتے ہوئے خوف زدہ ہوجاتے ہیں، چونکہ وہ دباؤ کا شکار ہیں‘‘۔
ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ ’’دوسری جانب، ایسے بھی صحافی ہیں جو آزادی صحافت اور پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کے لیے دباؤ کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے‘‘۔
پاکستان کے نامور دفاعی تجزیہ کار، برگیڈیئر (ر) حامد سعید نے کہا ہے کہ ’’ماضی کے مقابلے میں آج کا پاکستانی صحافی کسی بھی موضوع پر کھل کر بات کرسکتا ہے‘‘۔ تاہم، اُنھوں نے کہا کہ ’’کسی کو بھی ملک کے کسی کلیدی ستون کے خلاف بغیر ثبوت کے بیان بازی کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘۔
آڈیو رپورٹ سنئیے:
Your browser doesn’t support HTML5