طالبان کے اگست 2021 میں افغانستان پر قبضے کے بعد سے چین، ایران اور روس مستقل طور پر ان کی حکومت پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ تینوں ملکوں نے کابل میں اپنے سفارت خانے کھول رکھے ہیں ، اور وہ ان پہلے ملکوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے ملک میں افغان سفارت خانوں کا کنٹرول طالبان کے حوالے کیا۔
گزشتہ ماہ کابل میں ہونے والی علاقائی تعاون پر طالبان کی پہلی کانفرنس میں سب سے اعلیٰ سطحی وفود ماسکو، بیجنگ اور تہران کے تھے۔
لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس خطے میں طالبان کے ساتھ روس، چین اور ایران حقیقاً کس حد تک تعاون کر سکتے ہیں۔
تجزیہ کاروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس خطے میں بیجنگ، ماسکو اور تہران امریکہ کی مخالفت کے ایک مشترکہ مقصد کے لیے متحد ہو سکتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ شاید یہ وہ واحد علاقہ ہے جہاں ان کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
واشنگٹن میں مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ایران سے متعلق پروگرام کے بانی ڈائریکٹر ایلکس واٹنکا کا کہنا ہے کہ امریکہ کی مخالفت وہ واحد نظریہ ہے جو چین ایران اور روس کو قریب لاتا ہے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تہران، ماسکو اور بیجنگ امریکہ کو یوریشیا اور وسطی ایشیا سے باہر دھکیلنا چاہتے ہیں، لیکن وہ عملی سطح پر ایک دوسرے سے کتنا تعاون کر سکتے ہیں، یہ سب سے بڑا سوال ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف امریکہ کی مخالفت اس شراکت داری کو قائم نہیں رکھ سکتی کیونکہ ان کے پاس ایک دوسرے کو قریب لانے کے لیے کوئی اور نظریہ موجود نہیں ہے۔
SEE ALSO: طالبان کی میزبانی میں کانفرنس؛ 'ہم محاذ آرائی نہیں بلکہ بات چیت چاہتے ہیں'
امریکی محکمہ خارجہ کی حکمت علمی سے متعلق جاری کردہ ایک نئی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ چین، ایران اور روس سٹریٹیجک اور معاشی مفاد حاصل کرنے یا کم از کم امریکہ کو نقصان پہنچانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ایلیٹ اسکول آف انٹرنیشنل افیئرز کی لیکچرر نیلوفر سخی کہتی ہیں کہ چین، ایران اور روس نے طالبان کے ساتھ بہت قریبی تعلقات استوار کیے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ خطے میں سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
قریبی تعلقات کے باوجود تینوں ملکوں میں سے کسی ایک نے بھی طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا اور خطے میں ان کے مفادات مختلف ہیں۔
چین طالبان سفیر کی اسناد قبول کرنے والا پہلا ملک
پچھلے مہینے کے آخر میں چین طالبان کے سفیر کی اسناد باضابطہ طور پر قبول کرنے والا پہلا ملک بن گیا۔
کچھ سابق سفارت کاروں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام رسمی طور پر تسلیم کرنے کے مترادف تھا۔ لیکن واشنگٹن میں قائم سٹمسن سینٹر میں چائنا پروگرام کے ڈائریکٹر سن یون اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
سن یون نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کی طرف سے اب بھی طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنا باقی ہے، اگرچہ چین نے مغربی ممالک کے مقابلے میں افغانستان میں طالبان کے ساتھ بہت قریبی تعلقات قائم کر لیے ہیں۔
کابل پر طالبان کے قبضے سے قبل بیجنگ کئی برسوں سے طالبان کے ساتھ تعلقات بڑھا رہا تھا۔
SEE ALSO: طالبان سفیر سے اسناد کی وصولی؛ چین، افغانستان کو اہمیت کیوں دے رہا ہے؟
سن یون کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ڈھائی برسوں میں جیسے حالات رہے ہیں، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ طالبان کی حکومت کہیں نہیں جا رہی۔
وہ کہتی ہیں کہ افغانستان کے حوالے سے سیکیورٹی، معاشی اور سیاسی عوامل پر غور و فکر چین کی پالیسی میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
چین کے لیے تشویش کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ افغانستان سے عسکریت پسندی چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں سرایت کرتی ہے۔
بیجنگ کے افغانستان میں اقتصادی مفادات بھی ہیں، جن میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کو افغانستان تک توسیع دینا اور افغانستان میں معدنیات میں سرمایہ کاری شامل ہے۔ چین افغانستان کے اثاثے منجمد کرنے اور اس ملک کے عوام کو سنگین انسانی بحران میں تنہا چھوڑنے پر امریکہ اور نیٹو پر تنقید کرنے والوں میں شامل رہا ہے۔
طالبان اور ایران کے تعلقات گرم سرد رہے ہیں
اگرچہ ایران نے طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا، لیکن اس نے فروری 2023 میں تہران میں افغان سفارت خانہ طالبان کے حوالے کر دیا تھا۔
مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے واٹنکا کہتے ہیں کہ ایران کی حکومت نے بعض دو طرفہ مسائل کی وجہ سے، جن میں سرحدی سلامتی اور پانی کی تقسیم شامل ہے، طالبان کو تسلیم نہیں کیا۔
SEE ALSO: ایرانی وفد کا دورۂ پاکستان؛ 'اسلام آباد اور تہران کے افغانستان سے متعلق خدشات مشترک ہیں'
پچھلے سال، دریائے ہلمند کے پانی پر ایران اور طالبان کے درمیان تنازع پر ایک جھڑپ میں دو ایرانی سیکیورٹی گارڈ اور ایک طالبان سرحدی محافظ مارا گیا تھا۔
1990 کی دہائی میں افغانستان میں خانہ جنگی کے دوران، ایران طالبان کے خلاف لڑنے والی فورسز کی مدد کرتا رہا تھا۔ 1998 میں مزار شریف میں طالبان نے 9 ایرانی سفارت کاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ایرانیوں کے لیے ماضی کی ان تلخ یادوں کو جلد بھلانا ممکن نہیں ہے۔
روس اور طالبان کے تعلقات تضادات سے بھرے ہیں
ایران کی طرح روس بھی ایک ایسا ملک ہے جس نے 1990 کے عشرے میں خانہ جنگی کے دوران طالبان مخالف فورسز کی حمایت کی تھی۔
ماسکو میں ایک سابق افغان سفارت کار غوث جانباز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حالیہ برسوں میں افغانستان کے حوالے سے ماسکو کی پالیسی تضادات سے بھری ہوئی ہے۔
جانباز کہتے ہیں کہ روس سیاسی طور پر طالبان کی حمایت کر رہا ہے، لیکن اس کے فوجی اور سیکیورٹی حکام طالبان پر تنقید کرتے ہیں اور افغانستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے کا حوالہ دیتے ہیں۔
SEE ALSO: طالبان روس سے زیادہ مقدار میں تیل اور پیٹرولیم مصنوعات خریدیں گے
ان کا مزید کہنا تھا کہ طالبان کے قبضے سے پہلے ماسکو کے سابق افغان حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات تھے لیکن اس نے طالبان کی ہر سطح پر حمایت بھی کی۔
وہ کہتے ہیں کہ اب بھی اسی طرح ہے۔ روس کے طالبان کے ساتھ تعلقات ہیں لیکن ایک طالبان مخالف رہنما احمد مسعود نے گزشتہ سال نومبر میں افغانستان پر ایک کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ روس میں حکومت کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا۔
جانباز کہتے ہیں کہ طالبان کے ساتھ ماسکو کے قریبی تعلقات کے باوجود مجھے ایسا نہیں لگتا کہ ماسکو مستقبل قریب میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کر لے گا۔
(روشن نورزئی، ژیلانوری۔ وی او اے افغان سروس)