امریکی ایوان نمائندگان کے رُکن، آندرے کارسن نے کہا ہے کہ شدت پسندی سے ساری مہذب دنیا کو خطرہ ہے۔ بقول اُن کے، ’’اِس ضمن میں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ داعش، القائدہ اور دوسری شدت پسند تنظیمیں، جو خود کو مسلمان کہتی ہیں، ناصرف عالمی برادری بلکہ خاص طور سے مسلمانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں‘‘۔
’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کے ساتھ انٹرویو میں، انھوں نے اِس توقع کا اظہار کیا کہ صدر ٹرمپ مسلمان سکالرز، مفکروں اور سیاست دانوں کے ساتھ گفت و شنید کریں گے اور ان کے ساتھ مل کر چلیں گے، تاکہ امریکہ کو عظیم ملک بنایا جائے، جس پر صدر ٹرمپ خود زور دیتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’سعودی عرب ایک اہم حلیف ملک ہے۔ امریکہ اور دنیا بھر کو محفوظ بنانے کے مقصد کی کامیابی کے لیے ہمیں مسلمان دنیا کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا ہوگا‘‘۔
ساتھ ہی، اُنھوں نے کہا کہ ایران کو تنہا کر دینا اس مقصد کو پانے میں معاون ثابت نہیں ہوگا۔انھوں نے کہا کہ ’’سوچ کا یہ انداز نقصان دہ ہے۔ میں ایران کا ناقد ہوں۔ لیکن ایرانی لوگوں سے مجھے رغبت ہے‘‘۔
آندرے کارسن کا تعلق حزب اختلاف کی ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ کیتھ ایلیسن کے بعد، آندرے کارسن امریکی کانگریس میں منتخب ہونے والے دوسرے مسلمان رکن ہیں۔ وہ سال 2008 میں منتخب ہوئے تھے۔ آندرے کارسن ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس پر قائمہ کمیٹی کے پہلے مسلمان رکن ہیں۔
آندرے کارسن نے کہا کہ ’’ایران بھی خطے کا ایک اہم ملک ہے۔ میرے خیال سے ایران سے تعلقات کو ہر سطح پر بڑھانا چاہیئے، تاکہ اسے جوہری طاقت بننے سے روکا جا سکے، جیسا کہ صدر اوباما کی انتظامیہ کیا کرتی تھی‘‘۔اُنھوں نے کہا کہ ’’کوشش یہ ہونی چاہیئے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان مخاصمت میں کمی لانے میں مدد کی جائے‘‘۔
اپنے حالیہ دورہٴ سعودی عرب میں، امریکی صدر نے مسلمان ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پیش رفت کے حصول کے لیے عملی اقدامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، چونکہ یہ لڑائی مل کر ہی جیتی جا سکتی ہے۔ اس سے قبل صدر نے امریکہ کو درپیش سکیورٹی کے خطرات کے پیش نظر ، چھ مسلمان اکثریتی ممالک کے شہریوں کی آمد پر پابندی کا حکم نامہ جاری کیا تھا، جو فی الحال نافذالعمل نہیں۔
آندرے کارسن کا کہنا تھا کہ امریکی مسلمان ایف بی آئی ، سی آئی اے اور محکمہٴ خارجہ جیسے اہم اداروں میں کام کرتے ہیں، جو امریکہ کو محفوظ بنانے کا کام بجا لاتے ہیں۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران، ڈونالڈ ٹرمپ کے اسلام مخالف بیانات کے بارے میں ایک سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ تلخ بیانات دل آزاری کا موجب بنتے ہیں؛ اسی طرح، سخت مؤقف اختیار کرنے سے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوتے۔
اس انٹرویو کی ویڈیو آپ یہاں دیکھ سکتے ہیں:
Your browser doesn’t support HTML5