کراچی میں پچھلے دو دنوں سے شدید بارشوں کی پیش گوئی نے پورے شہر کو خوفزدہ کردیا ہے جبکہ منگل کی سہ پہر ہونے والی تیز بارش نے شہریوں کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز اور ماہرین صحت کے خدشات میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
ہفتے کو ملک بھر میں عیدالاضحی منائی جائے گی۔ کراچی میں اس موقع پر ساڑھے تین لاکھ سے چار لاکھ کے درمیان جانوروں کی قربانی ہوتی ہے اور اس وقت گھروں کے ساتھ ساتھ گلیاں بھی چھوٹے بڑے جانوروں سے بھری پڑی ہے۔
بچے اور بڑے بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے ان جانوروں سے رابطے میں ہیں جبکہ شہر میں پچھلے کئی سال سے صفائی کا نظام بری طرح متاثر ہے اور جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں۔ گٹر اور نالے ہفتوں اور مہینوں سے بند پڑے ہیں۔
غلاظت کے سبب شہر میں مچھروں کا راج ہے۔ یہ مچھر کانگو فیور، چکن گنیا، ڈینگی، ملیریا اوردیگر خطرناک بیماریاں پھیلانے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے بدھ سے جمعہ تک مزید تیز بارشوں اور اربن فلڈ یا شہری علاقوں میں سیلاب کی پیش گوئی کی ہے۔
یہی پیش گوئی عوام کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرز اور ماہرین صحت کے لئے پریشانی کا سبب بن گئی ہے۔ بڑے پیمانے پر مویشیوں کی شہر میں آمد نے بیماریوں کے پھیلنے کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے علاقوں میں بھی چکن گنیا اور کانگو بخار پھیل سکتا ہے جہاں اب تک اس بیماری کا وجود نہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، ڈائریکٹوریٹ ہیلتھ سروسز کراچی اور آغا خان یونیورسٹی ہاسپیٹل سے وابستہ ماہرین صحت، ڈاکٹرز اور انفیکشن سے ہونے والی بیماریوں کے ماہرین نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان ماہرین نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ جانوروں میں پائی جانے والی جان لیوا بیماری کانگو فیور کے کچھ کیسز پہلے صرف بلوچستان اور کشمیر میں رپورٹ ہوئے تھے لیکن اب ملک کے دیگرحصوں مثلاً پنجاب کے علاقے بہاولپور میں بھی کانگو وائرس کی موجودگی کا پتا چلا ہے۔
آغاخان یونیورسٹی کے شعبہ میڈیسن کی پروفیسر بشریٰ جمیل کا کہنا ہے ’’ عیدالاضحی کے قریب آتے ہی کانگو وائرس سے متاثرہ کیسز میں اضافے کا خدشہ ہے۔ جانوروں کی اسکریننگ کی سہولیات نہ ہونے، قصائیوں کا صفائی کا ناقص نظام یا صفائی کا نظام سرے سے ہی نہ ہونا خطرناک کانگو وائرس پھیلنے کی دو اہم وجوہات ہیں۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ کانگو بخارجان لیوا بیماری ہے جس کا فوری علاج ضروری ہے۔یہ جانورں کی جلد میں موجود ’چیچڑی‘ کے انسانی جسم میں منتقلی اور کاٹنے کے سبب پھیلتا ہے۔ مچھر کانگو وائرس کے مریض کو کاٹنے کے بعد کسی صحت مند انسان کو کاٹے تو بھی کانگو فیور ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو جاتا ہے۔
مچھروں کے کاٹنے سے ہونے والی بیماری ’چکن گنیا ‘سب سے پہلے کراچی میں دسمبر 2016 میں پھیلی۔ اس مرض کے 2000 کیسزرپورٹ ہوئے۔ مریضوں کی بڑی تعداد ملیر اور کورنگی کی رہائشی تھی اس کے بعد اب تھر میں چکن گنیا کے نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
صفائی اورحفظان صحت کی ناقص سہولیات اوربارش بیماریاں پھیلانے والے مچھروں کی افزائش اس کا بڑا سبب ہیں۔ چکن گنیا کے مریضوں کو اکثر تیز بخار کی حالت میں اسپتال لایا جاتا ہے۔ اس مرض کی علامات وہی ہیں جو ملیریا اور ڈینگی کے مریضوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔
کراچی میں گزشتہ ہفتے بھی مسلسل کئی دن بارشیں ہوئیں جن کے سبب قربانی کے لئے لگائی جانے والی منڈی میں گھٹنوں گھٹنوں پانی جمع ہو گیا، جس سے مچھروں کی افزائش بڑھ گئی جبکہ جانوروں کے فضلے میں بارش کے سبب کیڑے بھی پیدا ہو جاتے ہیں اور جب یہی جانور گھروں کو منتقل ہوتے ہیں تو اس سے پھیلنے والی تباہی کتنی خطرناک ہوسکتی ہے، اس کا اندازہ لگایا کوئی مشکل بات نہیں۔
چکن گنیا کی ماہر معالج اور پروفیسر بشریٰ جمیل کا کہنا ہے ’ چکن گنیا جان لیوا مرض نہیں لیکن کیس بگڑ جائے یا بروقت تشخص نہ ہو سکے تو کوئی بھی مرض انتہائی نقصان دے ہو سکتا ہے۔‘
عالمی ادارہ صحت کی کمیونیبل ڈیزیز یعنی انسانوں سے انسانوں یا جانوروں سے انسانوں میں پھیلی والی بیماریوں کی ماہر کنسلٹنٹ ڈاکٹر ندا صدیقی کا کہنا ہے ’گنجان شہروں، آلودہ پینے کا پانی، حفظان صحت کی سہولتوں کے فقدان، ابتر معاشی و اقتصادی حالات، صحت کے حوالے سے آگاہی نہ ہونا اور مناسب ویکسی نیشن نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ان بیماریوں کے وبائی صورت میں پھیلنے کا خطرہ موجود ہے۔‘