پاکستان میں امریکہ کی سابق سفیر این پیٹرسن نے کہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جموں اور کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کر کے حقیقتاً اس پر قبضہ کر لیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ کافی سخت الفاظ دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ کشمیر پر قابض ہو گئے ہیں۔
امریکہ کے جان فریڈرکس ریڈیو نیٹ ورک کو انٹرویو دیتے ہوئے این پیٹرسن کا کہنا تھا کہ بھارت اور پاکستان دونوں جوہری ہتھیاروں کے حامل ملک ہیں اور دونوں ملکوں میں 1965 اور 1999 میں کشمیر پر جنگ ہو چکی ہے۔ تاہم دنیا جنوبی ایشیا کے اس مسئلے پر زیادہ توجہ نہیں دے رہی ہے کیونکہ اس کے لیے جنوبی ایشیا اتنا دور ہے کہ انہیں یہ مسئلہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ برصغیر کی تقسیم کے وقت کشمیر میں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہونے کے باوجود اس کا بھارت سے الحاق کر دیا گیا کیونکہ اس کا راجہ ایک ہندو تھا۔
این پیٹرسن نے کہا کہ کشمیر پاکستانی عوام اور لیڈروں کے لیے ایک جذباتی مسئلے کی حیثیت رکھتا ہے اور جب وہ سابق صدر مشرف کے دور میں پاکستان میں امریکی سفیر کی حیثیت سے تعینات تھیں تو اس وقت بھی پاکستانی قیادت کے لیے مسئلہ کشمیر نفسیاتی طور پر انتہائی اہم اور حساس تھا۔
انہوں نے کہا کہ اب سے پہلے آخری مرتبہ کشمیر کے معاملے میں سابق صدر مشرف کے دور میں دونوں ملکوں میں بات چیت ہوئی تھی اور اس کے حل کا امکان پیدا ہوا تھا۔ لیکن بوجوہ بات آگے نہ بڑھ سکی۔
سفیر این پیٹرسن کا کہنا تھا کہ بھارت نے گزشتہ چند دہائیوں میں معاشی طور پر خاصی ترقی کر لی ہے جب کہ پاکستان اس میدان میں پیچھے رہ گیا ہے اور امریکہ بھارت کو نہ صرف ایک اہم تجارتی شراکت دار سمجھتا ہے بلکہ وہ خطے میں بڑھتی ہوئی طاقت چین کے خلاف بھارت کے اہم کردار کا خواہش مند ہے۔ لہذا ماضی میں بھی جب امریکی صدور نے کشمیر کے حوالے سے بھارت سے بات کرنا چاہی تو انہوں نے بھارتی قیادت کی مرضی کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے گریز کیا۔ یوں ان کے خیال میں صدر ٹرمپ مصالحت کی پیشکش کے باوجود کشمیر کے معاملے میں خاموش ہی رہیں گے۔
این پیٹرسن کے مطابق بھارتی وزیر اعظم نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے اقدام کے لیے وقت کا تعین بہت سوچ سمجھ کر ایسے موقع پر کیا ہے۔ جب دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے امن مذاکرات کامیابی کے قریب پہنچ گئے ہیں اور اس میں پاکستان کا تعاون اور کردار بہت اہم رہا ہے۔ لہذا بھارت یہ سمجھتا ہے کہ ان حالات میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں اور اگرچہ صدر ٹرمپ کے بارے میں پہلے سے کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی، تاہم وہ کشمیر کے معاملے خاموش رہنا ہی پسند کریں گے۔
دوسری جانب بھارت کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر اس کا ناقابل تنسیخ حصہ ہے۔ ریاست کو آرٹیکل 370 اور 35 اے کے تحت خصوصی حیثیت بھارت کے آئین نے دی تھی اور بھارت کی پارلیمنٹ کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اختیار حاصل تھا۔