اتوار کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع کُلگام کے طُری گام گاؤں میں ہونے والی ایک جھڑپ میں پولیس کا ایک ڈپٹی سُپر انٹنڈنٹ امن کمار ٹھاکور اور ایک فوجی اہلکار ہلاک اور دو میجروں سمیت فوج کے تین اہلکار زخمی ہوگئے۔ عہدیداروں نے بتایا کہ جھڑپ میں تین عسکریت پسند بھی مارے گئے ہیں اور یہ کہ اُن کی شناخت کرائی جارہی ہے۔ فوج کہتی ہے کہ ان کا تعلق کالعدم عسکری تنظیم جیشِ محمد سے تھا۔
جیشِ محمد نے بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے پُلوامہ ضلعے میں 14 فروری کو کئے گئے ایک خود کُش حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ اس حملے میں بھارت کے وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے اننچاس اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس واقعے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان زبردست کشیدگی پیدا ہوگئی ہے کیونکہ بھارت حملے کے لئے پاکستان کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ پاکستان نے بھارتی الزام کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے۔
اس دوران شورش زدہ ریاست میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے قائدین اور کارکنوں کی گرفتاری کا سلسلہ اتوار کو دوسرے دن بھی جاری رہا۔ اب تک تقریباً دو سو افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ ان میں اکثریت جماعتِ اسلامی جموں و کشمیر کے لیڈروں اور کارکنوں کی ہے۔ استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے بعض لیڈروں کو جن میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے ایک سابق چیئر مین پروفیسر عبدالغنی بٹ بھی شامل ہیں اُن کے گھروں میں نظر بند کردیا گیا ہے۔
گرفتاریوں کے خلاف اتوار کو وادئ کشمیر میں ایک عام احتجاجی ہڑتال کی گئی جس سے علاقے میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا۔ ہڑتال کے لئے اپیل استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والے قائدین کے ایک اتحاد ’مشترکہ مزاحمتی قیادت‘ نے کی تھی۔ ادھر سرینگر کے حساس علاقوں میں مسلح پولیس اور نیم فوجی دستوں نے کرفیو جیسی حفاظتی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔