سرینگر: دو مبینہ عسکریت پسندوں کی ہلاکت پر کشمیر میں احتجاج و جھڑپیں

احتجاج کے دوران مظاہرین کی سیکیورٹی فورسز سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے صدر مقام سرینگر میں سیکیورٹی فورسز نے پیر کو ایک کارروائی کرتے ہوئے دو مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے جس کے بعد سرینگر میں احتجاج کیا گیا اور مظاہرین کی فورسز سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ایک اطلاع پر یہ آپریشن کیا اور اس دوران مبینہ عسکریت پسندوں سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں دو مبینہ شدت پسند مارے گئے۔

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ مارے جانے والوں میں سے ایک شخص پاکستانی تھا جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں رواں سال کے آغاز سے سرگرم تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ مبینہ پاکستانی عسکریت پسند سرینگر میں نیم فوجی دستوں پر ہونے والے کم از کم دو حملوں میں ملوث تھا۔ تاہم پولیس کے ان دعوؤں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

دوسری جانب علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے جھڑپ کے دوران ایک عام شہری کے گھر کو آگ لگائی۔

سیکیورٹی فورسز اور مبینہ عسکریت پسندوں کے درمیان 'جھڑپ' ختم ہونے کے بعد سرینگر میں کشمیری سڑکوں پر نکل آئے اور سیکیورٹی فورسز اور بھارت کے خلاف احتجاج کیا۔

مظاہرین نے 'ہمیں آزادی چاہیے' اور 'بھارت واپس جاؤ' کے نعرے بھی لگائے۔

احتجاج کے دوران مظاہرین کی سیکیورٹی فورسز سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور چھرّوں والی بندوقوں کا استعمال کیا جس کے جواب میں مظاہرین نے فورسز پر پتھراؤ کیا۔

پولیس نے احتجاج کرنے والے کچھ افراد کو حراست میں بھی لیا۔ البتہ مظاہروں میں کسی شخص کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے۔

خیال رہے کہ کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جسے بھارت اور پاکستان اپنا حصہ قرار دیتے ہیں۔

بھارت کشمیر میں جاری بھارت مخالف اور علیحدگی کی حامی تحریک کو پاکستان کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی قرار دیتا ہے جب کہ پاکستان بھارت کے ان الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔

بھارتی کشمیر میں دہائیوں سے جاری اس شورش میں ہزاروں سویلین، علیحدگی پسند اور حکومتی فورسز کے اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔