نئے امریکی وزیر دفاع، ایشٹن کارٹر نے کہا ہے کہ داعش کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکہ کی حکمت عملی میں صحیح ’جزو ترکیبی‘ موجود ہے، جسے امریکی فوج اور سفارتی قائدین کے مابین ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں مرتب کیا گیا ہے۔ تاہم، اُنھوں نے مہم میں کسی بنیادی تبدیلی کا ذکر نہیں کیا۔
کویت میں دن بھر کی ملاقاتوں کے بعد، کارٹر نے تسلیم کیا کہ اِس میں مزید بہتری کی گنجائش ہے، جس سے وسیع تر پیرائے میں مراد یہ لگتی ہے کہ کچھ اتحادی اس لڑائی میں مزید حصہ ڈال سکتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ سماجی میڈیا کے شعبے میں داعش سے مقابلے کے لیے امریکہ کو ’مزید جارحانہ انداز‘ اپنانے کی ضرورت ہے۔
تاہم، اس بیان سے ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر براک اوباما کے ناقدین کو مایوسی ہوگی، جو حکمت عملی میں اہم تبدیلی لانے پر زور دیتے رہے ہیں۔ کارٹر نے یہ بھی اشارہ دیا کہ دیکھا جائے تو عراق، شام اور اس سے بھی آگے جاری پالیسیاں وسیع تناظر میں درست سمت میں ہیں۔
جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا اُن کے خیال میں پالیسی میں بنیادی نظر ثانی کی ضرور ت ہے، تو اُن کا کہنا تھا کہ، ’ہماری حکمت عملی میں وہ جز و ترکیبی موجود ہیں‘۔
بقول اُن کے، ’اب تک کی ہماری کوششیں کافی بارآور ثابت ہوئی ہیں۔ ہمارا عالمی اتحاد اپنا کام بجا لارہا ہے، اور یہی حال امریکی قیادت کا ہے‘۔
کارٹر نے بات چیت کا آغاز کویت کے کیمپ عارف جان میں دو درجن سے زائد امریکی اہل کاروں سے خطاب کرتے ہوئے کیا، جسے خطے میں ’ٹیم امریکہ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اُن میں مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کے سربراہ، جنرل لائڈ آسٹن اور داعش سے نمٹنے کے اتحاد کے اوباما کے ایلچی، جنرل جان ایلن شامل ہیں۔
اُنھیں سینئر امریکی کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل جیمز ٹیری نے شام اور عراق میں داعش کے خلاف جاری کارروائی کے بارے میں بریفنگ دی۔
کارٹر کے ساتھ سفر کرنے والے نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے، ٹیری خوش دکھائی دیے۔ اُنھوں نے توجہ دلائی کہ البغدادی کے قصبے پر دوبارہ کنٹرول کے حصول کے لیے عراق میں کارروائی ہوگی۔
ٹیری کے بقول، میرے تخمینے کے مطابق، داعش کی پیش قدمی رُک چکی ہے، اور وہ دفاعی حربوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے‘۔
اخباری نمائندوں کو دیے گئے بیان میں، کارٹر نےاتحاد کی طاقت کی طرف توجہ دلائی ، ساتھ ہی اُنھوں نے اس ضرورت پر بھی زور دیا کہ اتحاد کے ہر رُکن کو اپنی ذاتی کوششیں مزید بڑھانی ہوں گی۔
کارٹر نے کسی ایک ملک کا نام نہیں لیا۔ تاہم، امریکی اہل کاروں نے اس سے قبل یہ بات نہیں چھپائی کہ وہ اتحادی ملکوں سے، جن میں نیٹو کا اتحادی ترکی شامل ہے، اُن کی اضافی حمایت کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں۔
کارٹر نے داعش کی جانب سے سماجی میڈیا کے کامیاب استعمال کی طرف اشارہ کیا، جس کی مدد سے یہ گروپ شدت پسندوں کو بھرتی کی ترغیب دیتا ہے۔