چھ دہائیوں سے پاکستان انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے وابستہ ڈرامہ نگار اور شاعر انور مقصود اپنی تحریروں اور مزاح سے آج بھی لوگوں کو محظوظ کر رہے ہیں۔
بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ انور مقصود نے اپنے فنی کریئر کا آغاز ڈرامہ نگاری یا شاعری سے نہیں بلکہ اداکاری سے کیا تھا۔ لیکن پھر چند ہی برسوں بعد وہ اداکاری کم کر کے ڈرامہ نگاری، میزبانی اور گیت نگاری کی طرف آئے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انور مقصود نے بتایا کہ اداکاری سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب انہوں نے ارد گرد موجود اداکاروں پر نظر ڈالی۔
ان کے بقول "جب مجھے اداکاری کا شوق تھا تو اس وقت میں صرف آئینے میں خود کو دیکھتا تھا۔ لیکن جب میں نے اپنے ارد گرد اداکاروں کو دیکھا تو میں اداکاری سے پیچھے ہٹ گیا۔"
معروف اسکرپٹ رائٹر نے کہا کہ انہوں نے چند نئے لوگوں کو سکھانے کی کوشش تو کی تھی لیکن چند ہی دنوں میں انہیں یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ انور مقصود کے بقول پھر مجھے ان سے کہنا پڑا کہ آپ مجھے کچھ وقت دیں تا کہ میں آپ سے کچھ سیکھ سکوں۔
Your browser doesn’t support HTML5
انور مقصود نئے ڈراموں کی صورتِ حال اور موضوعات سے مطمئن نہیں۔ ان کے بقول ڈرامے کی آدھی کہانی تو ایک کمرے، ایک بیڈ اور ایک موبائل فون پر ہی گزر جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایک ہی گیٹ اَپ کے ساتھ ایک اداکار کئی ڈرامے کر جاتا ہے جب کہ آج کل بننے والے بہت سے ڈرامے تو ایسے ہیں جو ان کے بقول وہ خود بھی نہیں دیکھ سکتے۔
انور مقصود سمجھتے ہیں کہ ریٹنگ نے میڈیا کی آزادی کی بربادی کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ قیامت کی وہ نشانیاں ہیں جو لکھی ہوئی نہیں ہیں۔
انور مقصود نے پہلی بار آن ایئر انکشاف کیا کہ انہوں نے معروف کامیڈی پروگرام 'ففٹی ففٹی' سے کنارہ کشی اختیار کر کے 'شوشا' نامی پروگرام کیوں شروع کیا تھا، جسے آگے جاکر دیگر ناموں سے بھی پیش کیا گیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب 'ففٹی ففٹی' کا آغاز ہوا تھا تو اس وقت ان کے ساتھ کام کرنے والے ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے پروگرام مشہور ہوتا گیا وہی ٹیم ہِٹ ہو گئی۔
انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ جنرل ضیاء الحق نے 'ففٹی ففٹی' کی پوری ٹیم کو انعام دینے کے لیے مدعو کیا لیکن انہیں نہیں بلایا۔ جب انہوں نے اس کی وجہ دریافت کی تو انہیں بتایا گیا کہ کامیڈی شو میں تو اداکاروں کا کام ہوتا ہے لکھنے والوں کا نہیں۔
انور مقصود نے کہا کہ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے 'شوشا 'شروع کیا جس میں انہوں نے سلیم ناصر، شکیل، جاوید شیخ اور شفیع محمد جیسے سنجیدہ اداکاروں سے کامیڈی کرائی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹی وی کے ساتھ ان کی ناراضگی کا سلسلہ ہمیشہ سے ہی چل رہا ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے 'آنگن ٹیڑھا' کو ختم کرنے کا فیصلہ بھی کیا۔
انور مقصود کے بقول 'آنگن ٹیڑھا' میں ان کے کئی جملوں پر ٹی وی سے تعلق رکھنے والوں کو اعتراض تھا لیکن پھر بھی وہ اس سیریز کو آگے بڑھانے کے خواہش مند تھے۔
ان کے بقول اگر اچھی چیز اپنے وقت پر ختم ہو جائے تو لوگوں کو یاد رہتی ہے اور اگر وہ بدستور چلتی جائے تو تباہی ہوتی ہے جس کی سب سے بڑی مثال مارشل لا کی ہے۔ جو ایک وقت کے لیے ہوتا ہے کہ الیکشن کرائیں اور چلے جائیں۔ لیکن اگر یہ کئی کئی برس تک جاری رہے تو تباہی ہو جاتی ہے۔
'فن کاروں کا جینا تو خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن مرنا ہمارے ہاتھ میں'
انور مقصود نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں فن کاروں کا جینا تو خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن مرنا ہمارے ہاتھ میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'سلور جوبلی' پروگرام کے ذریعے انہوں نے اور شعیب منصور نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے سنہرے دور اور اس کے فن کاروں کو زندہ کرنے کی کوشش کی تھی اور آج بھی لوگوں کو اس پروگرام کا یاد ہونا اس کی کامیابی ہے۔
انور مقصود کے مطابق ان کے تمام اچھے پروگرام جنرل ضیاء الحق کے دور میں نشر ہوئے جس وقت ٹی وی پر سب سے زیادہ پابندیاں عائد تھیں۔ ان پروگراموں میں 'شو ٹائم'، 'شوشا'، 'آنگن ٹیڑھا'، 'سلور جوبلی'، 'انور کے ساتھ'، 'یہ کہاں کی دوستی ہے'، 'نعیم احمد بنام سلیم احمد'، 'مرزا اینڈ سنز'، 'دور جنوں' اور 'نہ قفس نہ آشیانہ' شامل ہیں جو مارشل لا کے زمانے میں ٹی وی پر چلے اور مشہور بھی ہوئے۔
انور مقصود کے ڈرامے 'دورِ جنوں' اور 'مرزا اینڈ سنز' دو ایسے طویل دورانیے کے ڈرامے تھے جو خاصے سنجیدہ تھے۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس بارے میں انور مقصود کا کہنا تھا کہ یہ دونوں ڈرامے انہوں نے معروف ہدایت کار اور اس وقت پی ٹی وی لاہور کے جنرل مینیجر محمد نثار حسین کے کہنے پر ایک چیلنج سمجھ کر لکھے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ نثار حسین صاحب ان کے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ مزاحیہ تو تم لکھ ہی لیتے ہو سنجیدہ بھی لکھو۔
انور مقصود نے بتایا کہ ایک کمرے میں دو کرداروں کے گرد گھومنے والا ڈرامہ 'دورِ جنوں' کافی مقبول ہوا تھا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'دورِ جنوں' نشر ہونے کے بعد کئی لوگوں نے ان سے رابطہ کیا کیوں کہ یہ ان کے بھی گھر کی کہانی تھی۔ نوابزادہ نصراللہ خان صاحب کے ایک رشتہ دار کو تو اس ڈرامے کے بعد دل کا دورہ بھی پڑ گیا تھا جن سے انور مقصود نوابزادہ صاحب کے کہنے پر اسپتال ملنے بھی گئے تھے۔
'معین اختر سے بڑا پرفارمر ہندوستان و پاکستان میں نہیں آیا'
انور مقصود اور معین اختر کی جوڑی نے 1980 سے لے کر 2010 تک ٹی وی پر کئی پروگرام پیش کیے اور آج بھی جب 'لوز ٹاک' کی کوئی کلپ یوٹیوب پر پوسٹ ہوتی ہے تو وائرل ہو جاتی ہے۔
انور مقصود سمجھتے ہیں کہ معین کے بارے میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ہندوستان و پاکستان میں اس معیار کا پرفامر نہیں آیا۔
انور مقصود کہتے ہیں کہ انہیں اپنی تمام سرگرمیوں اور مصروفیات میں سب سے زیادہ مزہ پینٹنگ میں آتا ہے۔ ان کے بقول کرونا کی وجہ سے انہیں نہ صرف پینٹ کرنے کا زیادہ موقع ملا بلکہ انہیں وہ بہت سی کتابیں پڑھنے کا موقع بھی ملا جو انہوں نے پہلے نہیں پڑھی تھیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کتابیں نہ پڑھنے کی ہی وجہ سے آج کل کے لوگوں میں لکھنے کا ہنر کم ہو رہا ہے اور شاید اسی وجہ سے ٹی وی پر مزاح کے نام پر جو ہو رہا ہے وہ ان کے خیال میں درست نہیں۔
انور مقصود نے کہا کہ دنیا کا سب سے آسان کام کسی اور پر تنقید کرنا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود اس شعبے میں اتنا اچھا کام کر چکے ہوں کہ دوسرے پر تنقید کرنے کے قابل ہوں۔
انہوں نے کہا کہ پہلے مزاح کی حد اس وقت ختم ہو جاتی تھی جب لکھنے والے کا قلم کسی کے بارے میں لکھتے لکھتے رُک جاتا تھا لیکن اب مزاح شروع ہی وہاں سے ہوتا ہے جہاں پہلے لکھنے والا رک جاتا تھا۔
انور مقصود نے کتاب کیوں نہیں لکھی؟
انور مقصود پر ان کی اہلیہ عمرانہ مقصود ایک کتاب 'الجھے سلجھے انور' لکھ چکی ہیں جسے پڑھنے والوں نے کافی پسند کیا۔ لیکن انور مقصود نے خود کوئی کتاب نہیں لکھی۔
اس سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کے کمرے میں ہر وقت چار کتابیں موجود ہوتی ہیں جن میں قرآن، دیوانِ غالب، کلیاتِ میر تقی میر اور کلیاتِ اقبال شامل ہیں۔ ان کے بقول ان چاروں کتابوں کے ہوتے ہوئے ان کی کتاب لکھنے ہمت ہی نہیں ہوئی۔
البتہ انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے چند اسکرین پلیز اکٹھا کر رہے ہیں تا کہ اسے کتاب کی شکل میں لاسکیں۔
انور مقصود اسٹرنگز بینڈ کے تیسرے بینڈ ممبر کیسے بنے؟
فیصل کپاڈیا اور بلال مقصود معروف میوزک بینڈ اسٹرنگز کے ممبر ہیں لیکن اس بینڈ کے تیسرے ممبر انور مقصود ہیں جو ان کے گیت لکھتے ہیں۔
انور مقصود کا کہنا تھا کہ آغاز میں اسٹرنگز کے گانے بلال اور فیصل خود ہی لکھتے تھے۔ لیکن جب سے 'دور' البم آیا تب سے ان کے زیادہ تر گانے انور مقصود ہی کے قلم سے لکھے گئے۔
انہوں نے کہا کہ اسٹرنگز ہی کی وجہ سے بالی وڈ کی 'زندہ' اور 'شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈوالا' جیسی فلموں میں ان کا نام آیا۔
SEE ALSO: میوزیکل بینڈ 'اسٹرنگز' کا بریک اپ، یا ایک اور بریک؟اپنے کریئر میں لاتعداد انٹرویوز کرنے والے انور مقصود نے بتایا کہ ان کا سب سے یادگار انٹرویو جنرل پرویز مشرف کا تھا جو کہ کبھی ہوا ہی نہیں۔
ان کے بقول پرویز مشرف جب صدر تھے تو انہوں نے ہر ٹی وی چینل پر ہر خاتون اینکر کو انٹرویو دیا لیکن مجھے نہیں دیا۔ ان کے بقول آخر میں تنگ آ کر میں نے انہیں پیغام بھیجا کہ انور مقصود دوپٹہ پہن کر انٹرویو کرنے کو تیار ہیں۔ جس پر بعد میں وہ ہنسے کہ آپ سے بات کر کے اچھا لگتا ہے تو انٹرویو کیوں دوں۔
'ٹوئٹر پر مجھ سے منسوب اکاؤنٹس میں سے ایک بھی میرا نہیں'
انور مقصود آج کل اپنے ٹوئٹس کی وجہ سے کافی زیرِ بحث رہتے ہیں۔ لیکن معروف پلے رائٹر کا کہنا ہے کہ ٹوئٹر پر ان سے منسوب 11 اکاؤنٹس میں سے ایک بھی ان کا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ان لوگوں کو جانتے ہیں جو ان کے فیک اکاؤنٹس چلا رہے ہیں اور وہ یہ بات میڈیا پر بھی کہہ چکے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہ لوگ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔
تھیٹر پر اپنی لیٹ انٹری سے متعلق بات کرتے ہوئے انور مقصود نے بتایا کہ اسٹیج کے لیے لکھنے کی ہمت چاہیے تھی جو انہیں تھیٹر کمپنی 'کاپی کیٹس' کے لڑکوں نے دی۔
ان کے بقول اگر کاپی کیٹس پروڈکشن کے لڑکے میرے گھر کے باہر آکر نہ بیٹھے رہتے اور مجھے میرے ہی مکالمے سنا کر متوجہ نہ کرتے تو میں شاید تھیٹر کی جانب نہیں جاتا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ تھیٹر کے لیے 'ہاف پلیٹ'، 'آنگن ٹیڑھا'، 'سیاچن' جیسے کامیاب ڈرامے لکھ چکے ہیں اور اب ان کا ایک اور ڈرامہ جلد ہی پیش کیا جائے گا۔
SEE ALSO: 'طنز کے یہ تیر اب ویسے تیکھے نہیں رہے، جیسے ہوا کرتے تھے'انور مقصود نے بتایا کہ ان کی ایک فلم کی اسکرپٹ بھی تقریباً مکمل ہے جس میں معروف اداکار فواد خان اداکاری کے جوہر دکھائیں گے۔
تاہم اپنی پہلی اور اب تک کی آخری فلم 'دیوانے تیرے پیار کے' کے متعلق انہوں نے بتایا کہ اس فلم میں صرف ان کا نام استعمال ہوا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ جو 'دیوانے تیرے پیار کے' انہوں نے لکھی تھی وہ کافی ادبی تھی۔ اس میں ان کا صرف ایک جملہ 'خدا حافظ' رکھا گیا تھا۔ باقی سب انور مقصود کے بقول سید نور نے دوبارہ لکھا تھا۔