مشرقِ وسطیٰ کے ممالک جہاں گذشتہ سال عوامی تحریکوں کے نتیجے میں حکومتیں بدلی تھیں جمہوریت کے قیام کی طرف بڑھ رہے ہیں لیکن ان ملکوں میں تبدیلی کی رفتار اور کامیابی کی شرح ایک جیسی نہیں۔ دوسری طرف علاقائی اور عالمی طاقتیں بدلے ہوئے حالات سے نمٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
تیونس مصر اور لیبیا میں عوامی تحریکوں نے ان ملکوں میں خاصا جو ش و خروش پیدا کر دیا تھا۔ اور مغربی طاقتوں نے بھی ان تبدیلیوں کا خیر مقدم کیا اگرچہ یہ تشویش بھی پیدا ہوئی کہ ہو سکتا ہے کہ علاقے کے نئے لیڈروں کا رویہ اتنا دوستانہ نہ ہو جتنا ان مطلق العنان حکمرانوں کا تھا جن کا تختہ الٹا گیا۔
فیلپ لوتھرایمنیسٹی انٹرنیشنل میں مشرق وسطیٰ کے امور کے عبوری ڈائریکٹر ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’’یہ بڑی ستم ظریفی لگتی ہے کہ باہر کی دنیا میں کچھ لوگوں کو یہ تشویش ہے کہ نئی حکومتیں کیسی ہوں گی کن لوگوں پر اور کن سیاسی پارٹیوں پر مشتمل ہوں گی‘‘۔
لوتھر کہتے ہیں کہ مغرب کو اس غم میں گرفتار نہیں ہونا چاہیئے کہ مشرقِ وسطیٰ میں نئی حکومتیں خارجہ پالیسی اور انسانی حقوق کے شعبوں میں کیا کریں گی اور انہیں اس پیمانے سے جانچنا چاہیئے کہ وہ کس قسم کے اقدامات کر رہی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں علاقائی طاقتوں خاص طور سے ایران کے مذہبی لیڈروں اور سعودی شاہی خاندان کا رویہ عوامی تحریکوں کے بارے میں متضاد رہا ہے۔ انہیں عالمی حقوق اور جمہوریت کے مقابلے میں اپنے مفادات کی فکر زیادہ رہی ہے۔
’’ان پیغامات میں جو چیز نمایاں ہے وہ ہے اپنے ہی اصولوں سے انحراف۔ بلکہ ان کی منافقت کیوں کہ ایک طرف تو وہ ان چیزوں پر تنقید کرتے ہیں جو علاقے کے کچھ حصوں میں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف وہ دوسرے علاقوں میں اور خود ان کے گھر آنگن میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘‘
اس دوران مغربی اورعلاقائی طاقتیں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں آئندہ کیا ہوگا اور جو تصویر ان کے سامنے آتی ہے وہ خاصی پیچیدہ ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ تبدیلی کا عمل سب سے زیادہ منظم انداز سے تیونس میں جاری ہے۔ مصر میں احتجاج جاری ہیں کیوں کہ فوج نئی منتخب شدہ پارلیمینٹ کو اقتدار حوالے کرنے میں پس و پیش سے کام لے رہی ہے۔ لیبیا میں بعض ملیشیاؤں نے فوج میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ہے۔
یمن میں احتجاجیوں نے تبدیلی کا وہ منصوبہ مسترد کر دیا ہے جسے بین الاقوامی حمایت حاصل ہے کیوں کہ اس میں سابق صدر کو عام معافی دینے کی رعایت شامل ہے۔
اور شام بحرین اور سعودی عرب احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور انھوں نے صحیح معنوں میں اصلاحات کا راستہ روک رکھا ہے۔
خطرات کا اندازہ لگانے والی فرم میپل کرافٹ میں مشرق وسطیٰ کے ماہر اینتھونی اسکنر کہتے ہیں کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ احساس روز افزوں ہے کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو مختصر عرصے میں ختم ہو جائے۔ یہ ایک طویل جدو جہد ہو گی۔ اور اگر کسی مرحلے پر معاملات کچھ سست پڑ گئے تو بھی مستقبل میں کسی بھی وقت یہ معاملہ پھر سر اٹھا سکتا ہے۔ میرے خیال میں یہ بات سب سمجھ چکے ہیں۔ لیکن ہمیں انفرادی طاقتوں کے سیاسی اندازوں کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔‘‘
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ ان سیاسی اندازوں کی روشنی میں مختصر مدت میں احتیاط سے پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا ۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ لمبے عرصے میں، وہی سیاسی اندازے اس بات کے متقاضی ہوں گے کہ عالمی طاقتیں مشرقِ وسطیٰ سے معاملہ کرتے وقت یہ دیکھیں کہ حالات کیا ہیں، نہ کہ یہ حالات کیا ہوا کرتے تھے۔